دارا اول

ہخامنشی سلطنت کا تیسرا حکمران شہنشاہ جس 522 قبل مسیح سے 486 قبل مسیح تک حکومت کی۔

داراب کا مخفف۔ یونانی تلفظ، داریوش۔ ایران کا عظیم شہنشاہ اور فاتح۔ گستاسپ کا بیٹا اور ہنجامنشی خاندان سے تھا۔ کمبوجیا کی وفات اور غاصب گومتا کے قتل کے بعد مدائن کے تخت پر بیٹھا۔ تین سال تک اندرونی بغاوتوں کو فرو کرنے کے بعد مدائن کے تخت پر بیٹھا۔ تین سال تک اندرونی بغاوتوں کو فرو کرنے میں مصروف رہا۔ پھر سلطنت کے نظم و نسق کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوا۔ سلطنت کو 28 صوبوں میں تقسیم کیا۔ اس میں گندھارا، مکران، بلوچستان، عرب اور مصر قابل ذکر ہیں۔ ہر صوبے میں ایک کی بجائے تین حاکم ’’گورنر، جنرل اور وزیر ‘‘ مقرر کیے۔

دارا اول
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 550 ق مء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 486 ق مء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرہ دارا اول ،  نقش رستم   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ہخامنشی سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد خشیارشا اول [2]  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان ہخامنشی خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
شاہ شاہان   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
29 ستمبر 522 ق.م  – 1 اکتوبر 486 ق.م 
بردیا  
خشیارشا اول  
فرعون مصر   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
29 ستمبر 522 ق.م  – 1 اکتوبر 486 ق.م 
بردیا  
خشیارشا اول  
عملی زندگی
پیشہ ریاست کار ،  عسکری قائد ،  شاہی حکمران   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان قدیم فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ کمانڈر ان چیف   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

دار خورس کا داماد اور اس کا تعلق ہخامنشی خاندان کی دوسری شاخ سے تھا۔ اس لیے وہ تخت کا جائز حقدار نہیں تھا۔ دوسرا اس نے ایک ایسے شخص کو قتل کر کے تخت حاصل کیا تھا جس کو لوگ بردیاBrdya سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے اس کے تخت نشین ہوتے ہی ملک میں بغاوت کی آگ بھرک اٹھی۔ ہیروڈوٹس نے اس خاندان کا جو شجرہ دیا ہے اس کو دارا نے کتبہ ’بے ستون Behistum‘ میں کندہ کروایا ہے وہ یہ ہیں ”میری نسل کے آٹھ بادشاہوں نے مجھ سے پہلے حکومت کی ہے میں نواں ہوں۔[3]

تخت نشینی

ترمیم

دارا کے تخت نشین ہوتے ہی ملک میں بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی۔ ان بغاوتوں کو بیان کرنے سے پہلے ہم بردیا کے مسئلے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے متعلق سب سے پہلا بیان داراکا ہے جو اس نے کتبہ بہستون پر کندہ کروایا ہے۔ دار کہتا ہے کہ مجھ سے پہلے میرے خاندان میں کمبوجا Cambyes نامی بادشاہ تھا جو خورس کا بیٹا تھا کمبوجاکا ایک سگا بھائی تھا، جس کو مصر جانے سے پہلے کمبوجانے قتل کرادیا تھا۔ مگر کمبوجاکے مصر جانے تک لوگوں کو علم نہیں تھا۔ جب کمبوجامصر چلاگیا تو لوگوں میں بیچینی اور غلط افوائیں پارس کیا سارے ملک پھیل گئیں۔ یہاں تک کہ ایک مغ (مجوسی Megion) نے بغاوت کردی اور بردیاہونے کا دعویٰ کیا۔ یہ شخص ارکادیش Arcadish کے ایک مقام پنیشی پودہ PishiyPavda کا باشندہ تھا۔ پارس بلکہ سارے ملک کے لوگوں نے کمبوجا سے بغاوت کرکے اس کا ساتھ دیا اور اس نے تخت پر قبضہ کر لیا اس کے بعد کمبوجا نے خودکشی کر لی۔ یہ سلطنت جس پر گؤمات نے قبضہ کر لیا عرصہ دراز سے میرے خاندان میں تھی۔ میرے خاندان میں سے کسی فرد کی ہمت نہ تھی کہ گؤمات سے اپنی سلطنت چھین لے۔ لوگ اس سے ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ انھیں قتل کرادے۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ وہ اصلی بردیانہیں ہے۔ آخر میں آیا اور اہورا مژدہ سے مدد طلب کی اس نے میری مدد کی، میں نے اس کو ماد Madd کے ضلع نسایہ Nisayaکے ایک قلعہ سی کی ہواتش Sikayuvatish میں اس کے مصاحبین کے ساتھ قتل کر دیا، اس کے بعد اہورا مژدہ کے فضل سے خود بادشاہ بن گیا اور اپنی سلطنت واپس لے لی۔ یہ تو شاہی بیان ہے جو بالاالذکر درج ہوا ہے۔ یونانی مورخین نے اس روایت کو صیح تسلیم کرتے ہوئے بردیا کو فرضی بردیا اور داراکو تخت و تاج کا جائز وارث تسلیم کیا ہے۔ مگر دوسرے ایسے قرائن موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ داراکا باغی بردیا حقیقتاََ بردیا تھا اور اس نے اس کے قتل خبر خود اس کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے پھیلائی تھی۔ خود داراکا بیان ہے کہ سارے ملک نے اس باغی کی حمایت کی اور اس کے قتل کے رد عمل میں سارے مشرق سے مغرب تک شورش برپا ہوگئیں۔ حیرت ہے ایک غیر شخص کس طرح تمام لوگوں کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو گیا، نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بردیا سے اس قدر مشابہ تھا کہ اس ماں اور بہنیں بھی دھوکا کھاگئیں اور اس کو اصل بردیاسمجھا۔ ان شواہد کے پیش نظر دارکا بیان مشتبہ ہوجاتا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ دار امصر کی مہم میں کمبوجاکے ساتھ تھا اور اس کے ساتھ ہی واپس آیا۔ نیز وہی کمبوجا کی خودکشی کا واقع بیان کرتا ہے اور اس کاکہنا ہے کہ کمبوجانے خودکشی کے وقت بردیاکی موت کے راز کو ظاہر کیا اور اس سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی کو معلوم نہیں تھا تو کمبوجاکے مصرکے جانے کے بعد بے چینی کیوں پھیلی؟ اگر بردیاکے ناپید ہونے کی وجہ سے یہ بے چینی پھیلی تھی! تو غلط افواہ سے کیا مراد ہے۔ جب یہ واقع صحیح تھا اور یہ افواء بردیاکے متعلق تھی، جیسا کہ وہ خود کہتاہے کہ یہاں تک ایک شخص گؤمات نے اپنے کو بردیا ظاہر کر کے بغاوت کردی‘ تو پھر اس کو غلط افواہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں خود دارکے بیان سے سازش کا پتہ چلتا ہے۔ دارااور یونانی مورخین کے بیانات بھی مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ داراکا کہنا ہے کہ مصر روانگی سے پہلے بردیاکو قتل کر دیا گیا تھا۔ ہیروڈوٹس Herodatieis کا بیان ہے کہ دوران مصر قیام میں اور کتہ زاس Ctasias بتاتا ہے کہ مصر سے واپسی کے بعد کمبوجانے بردیا کو قتل کادیا تھا، مگر ساتھ ساتھ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ کمبوجاکی مصر سے روانگی کے وقت تک وہ زندہ تھا۔ اگر اس بیان کا یہ حصہ کہ کموجا کی مصر کی روانگی تک بردیا زندہ تھا، صیح مان لیا جائے تو دارا کی سازش بے نقاب ہوجاتی ہے کہ اس نے راستے میں کمبوجاکو قتل کیا اور اس واقع کو خودکشی سے منسوب کیا۔ کمبوجا کی موت کی خبر پاتے ہی بردیا نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ چوں کہ وہ ہردل عزیز تھا اس لیے لوگوں بخوشی اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔ ایسی حالت میں دارانے اس کو فرضی بردیا قرار دے کر اس کے خلاف پروپنگنڈہ شروع کیا اور اس کے فرضی قتل کی داستان پھیلا کر اس کے حامیوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی۔ پھر بھی اسے کامیابی کی صورت نظر نہ آئی تو کسی طرح قلعہ میں گھس کر پوشیدہ طور پر اسے قتل کر دیا۔ اس کے قتل کے بعد سارے ملک میں بغاوتوں کی آگ بھڑک اٹھی۔ جس کا سلسلہ داراکے آخری عہد تک جاری رہا۔[4]

بغاوتیں

ترمیم

سب سے پہلے عیلام اور بابل میں بغاوت ہوئی۔ عیلام میں اس کا رہنما آترین Attreen تھا، جس نے سوسیانہ پر قبضہ کر کے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا۔ مگر داراکی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکا اور مارا گیا۔ بابل کی بغاوت کا قائد ند نت بعلNid nit u bel تھا، اس نے خود کو نبو یندس Nebu Nidus کا بیٹا ظاہر کیا اور ایک محاصرے کے بعد گرفتار ہوا اور قتل کیا گیا۔ اس اثناء میں میدیا اور آرمینانے بھی بغاوت کردی۔ میدیاکا باغی رہنما فرورتش Ferurtsh تھا جو ہوخشترکی نسل سے تھا۔ پارتھیاکے باشندوں نے اس کی حمایت کی۔ دارانے دو فوجی دستے آّرمینا اور میدیا روانہ کیے۔ اول الذکر تو کامیاب رہا مگر میدیا میں شاہی دستے کو شکست ہوئی۔ آخر داراکو بابل کے محاصرے سے نجات ملی تو وہ خود گیا اور فرورتش نے شکست کھائی۔ دارنے اس کو قتل کر کے ملک پر دوبارہ تسلط قائم کیا۔ ابھی میدیامیں پوری طرح امن وامان بحال نہیں ہوا تھا کہ پھر بابل میں ارخہ Arkha، عیلام میں مرتیا Mertya، پارسFarsa میں دیہاذرات Vahyazdata، مرگیانہ Margiana یعنی مرو میں فراد Farda اور سگاریتا Sagartia میں چترتخمہ Chithratakhma نامی سرداروں نے بغاوت کردی۔ دارانے غیر معمولی شجاعت اور استقلال سے کام لے کر تمام شورشوں کو چند سال میں فرد کیا۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ مصر نے بغاوت کردی۔ 518 ق م میں دارانے مصر پر چڑھائی کردی اور وہاں کے حاکم اریاندس Aryabdesقتل کرکے ملک پر دوبار قبضہ کر لیا اور واپسی سے پہلے اس نے ایک ایرانی سردار کو وہاں کا حاکم مقرر کیا۔[5]

فتوحات

ترمیم

باوجود شورشوں اور بغاوت کے دارانے فتوحات کی طرف توجہ دی۔ 415۔ 215 ق م کے درمیان اس نے بحیرہ اسود Caspian Sea کے علاقوں پر بری اور بحری دونوں راستوں سے حملہ کیا اور سھتیوں کو مغلوب کرکے وادی ڈینوب Danube کے ایک وسیع علاقے پر تسلط قائم کیا۔ سھتیوں کی حمایت میں یونانیوں نے شورشیں برپا کر دیں۔ چنانچہ واپسی پر اس نے دریائے ڈینوب غبور کرکے ایشائے کوچک کو مسخر کیا، پھر اس نے سارڈیس Sardisمیں ایک سال تک قیام کرکے اس نے یہاں سے تھریس یا تراکیہ Thrace اور یونانی جزائر کو اپنی مملکت میں شامل کرنے کے علاوہ مقدونیہ Macdoniaکی ریاست کو بھی اطاعت پر مجبور کیا۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد اس نے مشرق کی طرف فوج کشی کی اور افغانستان اور مکران کو زیر نگیں کرکے سندھ اور پنجاب کے ایک بڑے حصے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اس کا یونانی جرنیل سکائی کس ہیروڈوٹس کے بیان کے مطابق وہ سندھ سے بحری بیڑے کے ذریعے مکران اور عرب ہوتا ہوا اپنے دار الحکومت واپس آیا۔ الغرض 500 ق م کے اختتام تک مغرب سے لے کر مشرق کی سرزمین دارکے زیر نگیں ہو گئی تھی۔[6]

یونانی ریاستوں کی بغاوت

ترمیم

داراکے عہد میں بغاوتیں تو بہت ہوئیں مگر یونانی بغاوتیں زیادہ دیر پا ثابت ہوئیں اور دارکے بعد تک جاری رہیں۔ چند یونانی جزائر اور شہروں نے خورس Cyrus کے دور میں اطاعت کرلی تھی۔ پھر داراکے عہد میں تھریس اور مقدونیہ نے اطاعت قبول کرلی تھی مگر وہ اس غلامی سے مطمعین نہ تھے۔ چنانچہ 499 ق م میں ایشائے کوچک کے یونانی باشندوں نے اہل اتھنزکے ایما پر بغاوت کر دی اور لیڈیاکے پائے تخت سارڈس پر قبضہ کر لیا۔ ایرانی فوج نے باغیوں کو شکست دے کر دوبارہ تسلط قائم کیا۔ لیکن 494 ق م میں لیڈیاکی جنگ میں ایشائے کوچک کے ایونیانی یونانیوں Ionian Greekکو دوسری شکست فاش دی اور انتقام میں میلتس Milltus کو برباد کر دیا، مگر ان سختیوں کے باوجود شورشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ایرانی فوج کے ہٹے ہی مقدونیہ، تھریس اور اریٹیریا Eretria نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ دارانے اس دفعہ اپنے بھتیجے مرودنیہ Mardunius کو مقرر کیا، جس نے تھریس کو فتح کیا اور مقدونیہ کے حاکم سکندر Alexanderکو اطاعت پر مجبورکیا۔ اس کا ارادہ دوسرے یونانی جزائر کی طرف پیش قدمی کا تھا۔ مگر طوفان میں اس کا بیڑا تباہ ہوجانے کے سبب دارانے اسے واپس بلا کر یہ مہم اپنے ایک سالار داتیہ Datis اور ارتافرنیہ Artaphernesکے سپرد کی۔ ان سالاروں نے اریٹیریا Eretria کو کلیۃََ تباہ کر دیا مگر ایتھنزپر حملہ ناکام رہا۔ اہل ایتھنزنے مراتھن Marathan کے مقام پر جو جزیرہ اٹیکا Attica میں ایتھنزسے چوبیس میل شمال مشرق میں واقع ہے ایرانی فوج کو عبرت ناک شکست دی پھر مصر نے بھی ایرانی جوا اتار پھینکا۔ دارا یونانیوں اور مصریوں کو قرار واقعی دینے کی فکرمیں تھا کہ موت نے اسے 486 ق م میں اٹھا لیا۔[7]

کارنامے

ترمیم

فتوحات اور زرمیہ واردات ہی دارا کے کارنامے نہیں ہے۔ انتظان مملکت قانون سازی اور تعمیرات کے سلسلے میں اس کی کارٖگزاریاں قابل ستائش ہیں۔ اس نے اپنی مملکت کو بیس تا اٹھائیس صوبوں یا سٹراپیوں میں میں تقسیم کیا اور ہر ایک پر ایک حاکم (خشتریوان) مقرر کیا اور ناجائز محاصل یک قلم منسوخ کر دیے۔ نیز مقدامت فیصل کرنے کے لیے عدالتیں قائم کیں۔ ایران کی تاریخ میں پہلا بادشاہ ہے جس نے سونے اور چاندی کے سکے جاری کیے، جن کو ’دریک Daric‘ کہتے تھے۔[3] موصلات کی ترقی دارا نے مرکزی حکومت کے اثر و نفوذ کو دور دراز صوبوں میں قائم رکھنے نیز تجارت کو ترقی دینے کی عرض سے نظام موصلات کی طرف توجہ دی اور مختلف سڑکوں کے ذریعہ اہم مقامت کو ایک دوسرے سے ملادیا۔ ان تمام سڑکوں اور رہاہوں میں سب سے بڑی اور شاندار وہ سڑک تھی جو سارڈس کو سوسہ سے ملاتی تھی اور شہاہی سڑک Royl Rood کہلاتی تھی۔ سڑک پر رہاگیروں کی حفاظت کا معقول انتظام تھا۔ ہر تھوڑے فاصلے پر مہمان خانے اور فوجی چوکیاں تھیں۔ دارا نے فرعون مصر نیخو دوم کی کھداوئی ہوئی نہر کو دریائے نیل سے ملادیا اس کے ذریعے ایشیا اور افریقہ کی تجارت کو ترقی دینے کی کوشش کی۔[8]

کتبے اور تعمیرات

ترمیم

دارا نے دار الحکومت پرساگر یا پسر گدائی کے جنوب و مغرب میں تقریباً پچیس میل کے فاصلے پر ایک نیا شہر آباد کیا اور وہاں ایک محل تعمیر کرایا جو ظخر Tachara کے نام سے مشہور تھا۔ اسی طخر کی طرف منسوب ہوکر پورے شہر کا نام اصظخر Istakhr پر گیا جس کو یونانی زبان میں پرسی پولس Persepois اور پارسی تخت جمشید کہتے ہیں۔ دارا نے اسی نو آباد شہر کو اپنا دار الحکومت بنایا اور اس کو ہر لحاظ ترقی دینے کی کوشش کی۔ یہ شہر تین مظبوط فصیلوں سے گھرا ہوا تھا، جن میں ایک فصیل مینارو اور ستونوں کی قطاروں پر مشتمل تھی اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے گزرتی تھی۔ خاص عمارتیں ایک مستطیل نما نا ہموار قطہ پر واقع تھیں۔ ان کے بیچ میں وہ شاہی قیصر تھا جو طخر کے نام سے مشہور تھا۔ اس محل کے درمیان پچاس فٹ مربع کا ایک وسیع کمرہ تھا، جس کی دیواروں پر برجستہ کاری کے نمونے تھے اور تواتر کے ساتھ یہ الفاظ لکھے ہیں جو آج بھی موجود ہیں۔ ’میں دارا بڑا بادشاہ، بادشاہوں کا بادشاہ، ملکوں کا بادشاہ، جس نے یہ محل تعمیر کرایا ہے‘۔ اس کے علاوہ ایک دوسرا بہت بڑا کمرہ تھا جس معتدد دروازے تھے اور عمارت کے مختلف حصوں کی طرف کھلتے ہیں۔ اس قیصر سے متصل ایک دوسری عمارت ہے جس کو آج کل ٹرپی لون Trrpylon کہتے ہیں۔ شاید یہ شاہی ایوان تھا۔ اس کے زینہ دار راستوں کی رویف پر امرا کی شکلیں کھدی ہوئی ہیں جن کو اوپر جاتے ہوئے دیکھایا گیا ہے۔ مشرقی پھاٹک کے سامنے دارا کا مجسمہ کندہ ہے جو تخت پر بیٹھا ہوا ہے اس کے پیچھے ایک شخص کھڑا ہوا ہے جو شاید اس کا ولی عہد خشیار شاہ ہے۔ اس عمارت کے نمونوں میں اٹھائیس شکلیں ملتی ہیں جو اس کی اٹھائیس سٹراپیوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ شوشہ یا شوشShushan بھی کہتے ہیں یہ عیلامیوں کا نے اس کو اپنا مستقرر بنا لیا تھا۔ اس کے بعد ہخامنشی اس ہر قابض ہو گئے اور اس کا نام ہخامنشی کتبوں میں انشان آیا ہے۔ وہاں ایک عمارت ہے جس کی بنیادیں دار نے رکھی تھی مگر تکمیل خشیارشا کے دور میں ہوئی۔ اس جگہ دارا کا ایک کتبہ ملا ہے جو بتاتا ہے اس کی تعمیر و تزئین کے لیے دور دراز سے سامان مگائے گئے تھے۔ مثلاً سنگین ستون افروڈیسیا Aphrodisiasسے، سدار Cedar لبنان سے، چاندی مصر سے، سونا مصر سے اور ہاتھی دانت ہندوستان سے درآمد ہوئے تھے۔ اس دیوریں خام انیٹوں اور چونے سے تعمیر ہوئی تھیں، جن کے اوپر رنگین اور چمکدار ٹائلیں لگائی گئی تھیں۔ اس عمارت کا خاص حصہ مختلف وسعتوں کے تین صحنوں پر مشتمل تھا جن کے چاروں طرف بڑے بڑے کمرے اور برآمدے تھے۔ دارا کے جو کتبے ملے ہیں ان میں سب سے اہم کتبہ بہستون Behistum ہے۔ یہ ہگتمان (ہمدان) کے قریب ہگتمان اور بابل کی قدیم شاہرہ پر کرمان شاہ کے مشرق میں پہاڑیاں واقع ہیں۔ ان پہاڑیوں کے دامن میں ایک چھوٹا سا گاؤں باستون یا بہستون واقع ہے۔ اس گاؤں کی قربت کی وجہ سے یہ کتبہ بہستون مشہور ہو گیا ہے۔ متعدد الوح کے اوپر تین زبانوں عیلامی، بابلی اور قدیم فرنس یا قدیم فارسی میں لکھا ہوا ہے۔ اس کی ایک نقل مصر کے العطین کے کاغذات سے ملی ہے۔ یہ نقل آرانی رسم الخط میں ہے۔ اس کتبہ میں تحریر کے علاوہ مختلف مناظر ہیں جو پھتروں پر نقوش میں پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں دارا کی شاندار کامیابیوں اور دشمنوں کے عجر و عزمیتوں کو دیکھایا گیا ہے۔[9]

عدالتیں اور قانون

ترمیم

بادشاہ کی عدالت سب سے بڑی عدالت ہوا کرتی تھی، جہاں مقدمات آخری فیصلے کے لیے پیش کیے جاتے تھے۔ بادشاہ اپنی رائے کے مطابق فیصلے کیا کرتا تھا اور اس خدائی منشا کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔ چونکہ وہ تنہا مقدمات کا فیصلہ نہیں کر سکتا تھا اس لیے اس نے اپنی سلطنت میں عدالتوں کا وسیع نظام قائم کر رکھا ہوا تھا۔ اس عدالت کے بعد ایک دوسری عدالت عالیہ بھی تھی جو سات قاضیوں پر مشتمل تھی اور تمام اہم مقدمات کی سماعت کرتی تھی۔ اس کے ماتحت صوبائی اور مقامی عدالتیں تھیں۔ ملک میں جرائم اور دیوانی معاملات سے متعلق کچھ قوانین تھے، جن کی حثیت مذہبی اور روایتی احکام کی تھی۔ بادشاہ بھی ان کا احترام کرتا تھا اور عدالتیں ان کے مطابق فیصلے دیا کرتی تھیں۔ دارا نے ملکی قوانین کی بھی اصلاح کی اور نئے قانون و ضع کر کے نافذ کیے۔ مگر افسوس ہے کہ اس کے ضابطہ قانوں کا کوئی حصہ دستیاب ہو سکا ہے۔ تمہید اور تتمہ کے جو چند ٹکرے ملے ہیں یا جو حوالے پائے جاتے ہیں وہ حمورابی کے ضابطہ قانون سے ماخوذ نظر آتے ہیں۔ ایسی حالت میں کوئی رائے قائم کرنا سخت دشوار ہے۔[10] سلطنت کی حدودیں دار اول کا عہد ایرانی سلطنت کے انتہائی عروج کو ظاہر کرتا ہے نقش رستم پر کود دارا نے اپنی سلطنت کی حدود کو بتایا ہے۔ اس کتبے کے مطابق مغرب میں بحر ایڈریاٹک Adritic و ْقرطاجنہ Carthage اور مشرق میں دریائے سندھ تک یہ مملکت پھیلی ہوئی تھی۔ اس طرح شمال میں ماورالنہر اور جنوب میں حبشہ اس کی حد بندی کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے اس سے پہلے اتنی بڑی سلطنت کا کوئی نشان تاریخ میں نہیں ملتا ہے[11]

مالیات

ترمیم

محکمہ مالیات کو سب سے پہلے دارا نے منظم کیا۔ محاصل کا تعین اور ان کی وصولی کا طریقہ مقرر کیا۔ ہر سٹراپی کو ایک سالانہ ایک مقرر رقم شاہی خزانے میں داخل کرنی پڑتی تھی۔ محاصل نقد اور جنس دونوں شکلوں میں وصول کیے جاتے تھے۔ دارا کے عہد میں سلطنت کی کل نقد آمدنی 14560 ٹیلنٹ Talants یعنی تقریباً دو کڑور ساٹھ پونڈ تھی۔ چند سٹراپیؤں کے خراج حسب ذیل تھے۔ ہندوستان 4680 ٹیلنٹ، بابل اور آشوریہ1000 ٹیلنٹ، مصر 700 ٹینٹ، ایشیا کوچک 1760 ٹیلنٹ اور بلوچستان 170 ٹیلنٹ۔ نقد رقم کے علاوہ ہر صوبے کو جنس کی شکل میں کچھ ادا کرنا پڑتا تھا۔ مثلاً بابل پانچ سو خواجہ سرا حکومت کو مہیا کرتا تھا۔ اس طرح ہندوستان سے کتے، حبشہ سے ہاتھی دانت اور آبنوس، آرمینا سے ایک لاکھ بھیڑیں، چار ہزار خچر، تین ہزار گھوڑے وصول کیے جاتے تھے اور ان کی نوعیت صوبائی خراج کے علاوہ ہدیے، مال غنیمت اور سرکاری اراضی کی پیداوار شاہی خزانے کی آمدنی کے ذرائع میں شامل تھے۔[12]

دارا پہلا ایرانی بادشاہ تھا جس نے سونے اور چاندے کے سکوں کا اجزا کیا تھا۔ یہ دریک Daric کہلاتے تھے اور اس پر دارا کی شکل نقش ہوتی تھی۔

فوجی خدمات

ترمیم

ملک کے اندر دارا نے فوجی خدمات لازمی قرار دے دی گئی تھی۔ جنگ کے وقت پندرہ سے پچاس سال تک کی عمر کے تمام لوگ فوجی خدمت پر مجبور تھے، نیز اس پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا، جب ایک باپ کے تین بیٹے فوج میں بھرتی کیے جا رہے تھے، دارا سے ایک کو بری کرانے کی درخواست کی گئی تو محض اس درخواست کے جرم میں تینوں بیٹوں قتل کر دیا گیا۔ جنگ کے موقع پر ہر سٹراپی سے فوجیں طلب کرلی جاتی تھیں، جو مختلف نسلوں اور مذاہب کے سپاہیوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ جنگ کے موقع پر بادشاہ عموماً فوج کی قیادت کرتا تھا۔[12]

زبان

ترمیم

ہخامنشی عہد میں جو کتبہ دستیاب ہوئے ہیں وہ بالعموم تین زبانوں میں یعنی قدیم فارسی یا فرنس قدیم، علامی اور بابلی ہیں، ان میں صرف چند کتبہ قدیم فارسی کے ہیں۔ یہی زبان شاہی زبان کی حثیت رکھتی تھی، اس کا رسم الخط میخی ہے جو آرامی رسم الخط سے ماخوذ ہے۔ مگر ایرانیوں نے اس میں ہجا کی بجائے حروف تہجی استعمال کر کے اس کی پیچیدگیاں دور کردی تھی۔[13]

مذہب

ترمیم

دارا کے ایک کتبہ میں اہورا مژدہ کا نام آیا ہے، اس لیے خیال کیا جاتا ہے دار اول زرتشی مذہب رکھتا تھا۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔152) دارا نے چھتیس سال حکومت کی اور اس عرصہ میں معتدد جنگیں لڑیں۔ انیس جنگوں میں خود بھی شریک ہوا اور نہ حوادث نے اس کے قدم ڈگمگائے اور نہ شورشیں اس کے عزم کو متزل کرسکیں۔ اس نے چٹان کی ماند ہر ایک کا دیوانہ وار مقابلہ کیا۔ اس عہد میں ایرانی سلطنت ماورالنہر و سندھ سے لے کر وادی ڈینوب و مصر تک وسیع ہو گئی۔ اس کے یہ کارنامے اس کو دنیا کے فاتحین کی جگہ دینے کے لیے کافی ہیں [3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Encyclopædia Britannica
  2. خالق: گیٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ — تاریخ اشاعت: 24 نومبر 2014 — یو ایل اے این - آئی ڈی: https://www.getty.edu/vow/ULANFullDisplay?find=&role=&nation=&subjectid=500116533 — اخذ شدہ بتاریخ: 22 مئی 2021
  3. ^ ا ب پ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 44
  4. ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق، جلد دؤم۔35 تا 39
  5. ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 40، 41
  6. ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم 41۔ 42
  7. ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔42، 43
  8. ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 44، 45
  9. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دوم، 45۔ 170۔ 171۔ 177 تا 180
  10. ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 46، 47، 131
  11. ۔ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 117، 118
  12. ^ ا ب ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 126، 127
  13. ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 168
  NODES