دہشت گردی

سیاسی یا نظریاتی مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے تشدد کا استعمال
(دہشت گرد سے رجوع مکرر)

دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف کرنا کہ جو ہر لحاظ سے مکمل اور ہر موقع پر سو فیصد اتفاق رائے سے لاگو کی جا سکے، اگر ناممکن نہیں تو کم از کم انتہائی مشکل ضرور ہے۔ اگر ہر قسم کے پس منظر اور اس معاشرے کے حالات کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے تو پھر اس لفظ کی لغوی تشریح یوں ہو سکتی ہے کہ “خوف اور ہراس پیدا کرکے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ایسا نپا تلا طریقہ کار یا حکمت عملی اختیار کرنا جس سے قصوروار اور بے قصور کی تمیز کے بغیر، (عام شہریوں سمیت) ہر ممکنہ ہدف کو ملوث کرتے ہوئے، وسیع پیمانے پر دہشت و تکلیف اور رعب و اضطراب (جسمانی نہ سہی نفسیاتی) پھیلایا جائے۔“

تین بنیادی نظریوں کی مدد سے ہم اس کی زیادہ بامعنی تعریف کرسکتے ہیں-

  1. دہشت پسند ‘پاگل’ نہیں ہیں اور نہ ہی صرف وہی مجبور اور مظلوم ہیں-
  2. عموماً جنھیں نشانہ بنایا جاتا ہے وہ اصلی ہدف نہیں ہوتے، بلکہ اصلی ہدف تو بچے رہتے ہیں-
  3. دہشت پسند چاہتے ہیں کہ انھیں بہت سے لوگ دیکھیں نہ کہ بہت سے لوگ مر جائیں- یہ لوگ قابل نفرت ہیں -[1]

دہشت گردی کی تعریف

ترمیم

اپنے مکروہ مقاصد کے لیے خواہ وہ اغوابرائے تاوان صورت میں ہو، بیٹیوں، ماؤں، بہنوں، بیویوں اور خواتین پر ظلم اور ہراس کی صورت میں ہو، قتل کی صورت میں ہو، دہشت پھیلا کر ناجائز طور پر مال کے حصول کی صورت میں ہو، بھتہ خوری کی صورت میں ہو، دہشت اور خوف ہراس پیدا کرکے کسی کی جائداد ہتھیانے کی صورت میں ہو، ریاست کا اپنے شہریوں پر ظلم کرنے اور انھیں قتل کرنے کی صورت میں ہو، ایک طاقت ور ریاست کا دوسری کمزور ریاست کے کمزور لوگوں پر ظلم و ستم کرنے اور انھیں قتل کرنے کی صورت میں ہو، سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کو قتل کرنے کرنے کی صورت میں ہو، پولیس کا ماروائے عدالت جعلی پولیس مقابلے میں لوگوں کو مارنے کی صورت میں ہو، ایسا عمل جس سے کسی بھی معاشرے میں فساد پھیلے یا ایسا عمل جس سے کسی بھی معاشرے کے بے گناہ بے قصور اور پرامن لوگوں میں خوف و ہراس پھیلے دہشت گردی کہلاتا ہے۔ مختصر طور پر دہشت گردی کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے کہ وہ عمل جس سے کسی بھی معاشرے، ملک، شہر، گائوں، قصبہ، گلی، محلہ، خاندان کے لوگوں اور کسی فرد میں خوف و ہراس اوردہشت پھیلے دہشت گردی کہلاتا ہے۔

دہشت گردی اور اسلام

ترمیم

اسلام ایک پرامن مذہب ہے اور وہ امن کا درس دیتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قرآن میں رحمت اللعالمین یعنی تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا گیا ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جتنے بھی غزوات اور جنگیں لڑیں وہ سب اپنے دفاع میں لڑیں یا ان لوگوں کے خلاف لڑائیاں لڑیں جو اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے تھے اور جنگ کی تیاریاں کر رہے تھے اور حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور حملہ کے لیے پرتول رہے تھے۔ آپ نے اسلام کو پرامن طور پر تبلیغ کے ذریعے پھیلایا اور ہمیشہ امت کو امن کا درس دیا کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جنگیں مسلط کی جس کا جواب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دینا پڑا جس نے آپ کے خلاف تلوار اٹھائی اس کے خلاف آپ کو بھی تلوار اٹھانا پڑی ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دلیل اور تبلیغ کا ہمیشہ پرامن راستہ اپنایا یہی وجہ ہے کہ اسلام بہت تیزی سے پھیلا اور لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے۔

دہشت گردی قرآن کی روشنی میں

ترمیم

ْقرآن مجید میں دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے سورۃ مائدہ کی آیت ہے

جس نے ایک انسان کو(ناحق) قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔[2]

اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے ذرا سوچیں وہ اسلام جو ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل سمجھے کتنا پرامن مذہب ہو گا باقی اچھے برے لوگ ہر معاشرے، قوم، مذہب اور ملت میں پائے جاتے ہیں۔ لوگوں کے انفرادی فعل کو کسی مذہب یا دین پر لاگو کرنا درست نہیں ہے۔ تقریباٰ دنیا کے تمام مذاہب اور انبیاء علیہ السلام نے انسانوں کو امن، پیار، محبت، اخوت، برداشت اور بھائی چارے کی تعلیم دی ہے۔ اگر باریک بینی سے جائزہ لیں تو اسلام میں دہشت گردی اسی ذہنیت کے لوگ جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ان کی مخالفت کرتے رہے تھے اور جنھوں نے آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگیں لڑیں یا وہ منافقین جو اسلام میں شامل تھے لیکن درپردہ اسلام کی مخالفت کرتے تھے اور اللہ تعالی نے جن کے لیے سورۃ منافقون[3] نازل فرمائی۔

قرآن مجید سورۃ بقرہ کی آیت 11 اور 12 میں ارشاد خداوندی ہے

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ (11)اَلَا اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ (12)[4]

ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں خبردار بے شک وہی لوگ فسادی ہیں لیکن شعور نہیں رکھتے۔

جہاں فساد ہوتا ہے وہاں دہشت گردی بھی ہوتی ہے کیونکہ دہشت گردی کرنے والے بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ تو جو عمل کر رہے ہیں وہ دنیا کی اصلاح کے لیے کر رہے ہیں لیکن ان دہشت گردی کرنے والوں کو یہ شعور بالکل بھی نہیں ہوتا کہ بے گناہ لوگوں کو بغیر کسی وجہ کے مارنا بالکل بھی درست عمل نہیں ہے اور بہت ہی برا فعل اور بہت ہی بڑا گناہ ہے اور نہ ہی دہشت گردی کرنے والے یہ شعور اور سمجھ رکھتے ہیں کہ دہشت گردی سے کوئی بھلائی نہیں ہوتی صرف زمین پر فساد پیدا ہوتا کیونکہ فساد کی کوکھ سے ہی دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ دہشت گردی کرنے والے نہ صرف بے قصور اور بے گناہ لوگوں کی موت کا سبب بنتے ہیں بلکہ وہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں نہ ہی دہشت گردی کرنے والوں کو یہ شعور ہوتا ہے کہ وہ دہشت گردی کروانے والوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں کیونکہ دہشت گردی کروانے والے دہشت گردی کرنے والوں کو جنت کا خواب دکھاتے ہیں۔

بقول شاعر

کوئی خودکو بم سے پھاڑتا ہے

اور کہتا ہے میں جنت جاتا ہوں

معصوم انسانوں کے گلے کاٹتا ہے

اور کہتا ہے میں جنت جاتا ہوں

جبر سے شریعت نافذ کرتا ہے

اور کہتا ہے میں جنت جاتا ہوں

نفرت کا بازار سجاتا ہے

اور کہتا ہے میں جنت جاتا ہوں


وَاِذَا الْمَوْءُوْدَةُ سُئِلَتْ (8)بِاَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (9)

ترجمہ: اور جب لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا۔ وہ کس جرم پر ماری گئی۔[5]

زمانہ جاہلیت میں عربوں میں یہ رواج تھا کہ ان کے ہاں اگر بیٹی پیدا ہوتی تو اسے منحوس اور ذلت تصور کر کے زمین میں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ اور عرب کے لوگ اپنی اس دہشت گردی پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کا اظہار کرتے تھے۔ جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی تو ان کے ہاں خوشی کی بجائے غم منایا جاتا تھا۔ قرآن نے عربوں کی اس کیفیت کو اس طرح بیان کیا ہے۔

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ (58) يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَبِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ(59)

ترجمہ: جب ان میں سے کسی کی بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے (58) اس خوشخبری کی برائی کے باعث لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، آیا اسے ذلت قبول کر کے رہنے دے یا اس کو مٹی میں دفن کر دے، دیکھو کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں (59)[6]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عربوں کی اس جاہلیت، ظلم اور دہشت گردی کو سختی سے ختم کروایا کیونکہ بچیوں پر یہ خوف اور دہشت کی فضا ہر وقت طاری رہتی تھی کہ ان کی زندگی کسی وقت بھی ختم ہو سکتی ہے اسی طرح لڑکی پیدا کرنے والی ماں بھی اسی خوف اور دہشت کے عالم میں زندگی بسر کرتی تھی کے پیدا ہونے والی بیٹی کی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں اور ماں اس خوف اور دہشت کہ عذاب میں علحیدہ گرفتار ہوتی تھی کہ اس نے بیٹی پیدا کی ہے تو سسرال والے اس کی زندگی کو عذاب بنائے رکھیں گے۔ آج بھی دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو بیٹی پیدا ہونے کو اپنے لیے ذلت تصور کرتے ہیں۔ جبکہ اسلام بیٹے کو اللہ کی نعمت اور بیٹی کو اللہ کی رحمت قرار دیتا ہے۔ آج بھی پاکستان میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کے واقعات ملتے ہیں۔ بلوچستان میں 2008 میں پانچ عورتوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جن کو زندہ دفن کر دیا گیا تھا۔ ان عورتوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ اس واقعہ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ تھا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینٹر اسرار اللہ زہری نے نے پانچ عورتوں کے زندہ دفن کرنے کے واقعہ کو قبائلی روایات کی پاسداری قرار دیا اور کہا کہ بلوچ قبیلے نے قبائلی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے پانچ عورتوں کو زندہ دفن کیا ہے اس لیے اس معاملے کو اچھالا نہ جائے۔ سینٹر اسرار اللہ زہری کے بیان کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان میں اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن خوف اور دیشت کی وجہ سے منظر عام پر نہیں آتے۔اس وقت کے سینٹ کے قائدایوان رضا ربانی نے یہ بات کہ کر اپنی جان چھڑائی کہ یہ ایک صوبائی معاملہ ہے اور حکومت نے صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنی رپورٹ مکمل کر کے وفاقی حکومت کو بجھوائے۔اب سوچیں یہ کہ یہ کھلی دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے۔ایک طرف اسلام دہشت گردی سے روکتا ہے لیکن آج کے جدید اور تہذیب یافتہ دور میں اس قسم کے واقعات زمانہ جاہلیت کے دور کی یاد تازہ کرتے ہیں اور بڑے لوگ انھیں قبائلی روایات کی پاسداری قرار دیتے ہیں۔

دہشت گردی احادیث کی روشنی میں

ترمیم

بخاری کی حدیث ہے جس میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔

لَا تَرْتَدُّوْا بَعْدِي کُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ

ترجمہ: تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا۔[7]

اسی طرح خطبہ حجتہ الودع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی جان و مال کو تلف کرنے اور قتل و غارت گری کی خرابی کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وأعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هَذَا، فِی شَهْرِکُمْ هَذَا، فِی بَلَدِکُمْ هَذَا، إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ۔ أَلَا، هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ۔ قَالَ: اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ، فَلاَ تَرْجِعُوْا بَعْدِي کُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔

ترجمہ: ’’بے شک تمھارے خون اور تمھارے مال اور تمھاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمھارے اِس دن کی حرمت تمھارے اِس مہینے میں اور تمھارے اِس شہر میں مقرر کی گئی ہے اُس دن تک جب تم اپنے رب سے ملو گے۔ سنو! کیا میں نے تم تک اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا؟ لوگ عرض گزار ہوئے: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہنا۔ اب چاہیے کہ تم میں سے ہر موجود شخص اِسے غائب تک پہنچا دے کیونکہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جن تک بات پہنچائی جائے تو وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھتے ہیں اور سنو! میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کر کے کافر نہ ہو جانا۔‘‘[8]

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ و فساد کے ظہور، خون خرابا اور کثرت سے قتل و غارت گری سے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَيَنْقُصُ العِلْمُ وَيُلْقَی الشُّحُّ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ وَيَکْثُرُ الْهَرْجُ۔ قَالُوا: يَا رَسُولَ اﷲِ، أَيُمَا هُوَ؟ قَالَ: الْقَتْلُ، الْقَتْلُ۔

ترجمہ: ’’ زمانہ قریب ہوتا جائے گا، علم گھٹتا جائے گا، بخل پیدا ہو جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کی کثرت ہو جائے گی۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟ فرمایا کہ قتل، قتل )یعنی ہرج سے مراد ہے: کثرت سے قتلِ عام۔‘‘[9]

ان احادیث کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے اور اسلام قتل و غارت گری یا کسی کو ناحق قتل کرنے جو ایک کھلی دہشت گردی ہے کو سختی سے روکتا ہے۔ ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طور پر ہتھیانے جو خوف اور دہشت گردی کے ذریعے ہی ہتھیایا جاتا ہے کو لوگوں پر حرام قرار دیتا، اسی طرح اسلام فتنوں کے ظاہر ہونے اور فتنے پیدا کرنے کے سخت خلاف کیونکہ جہاں فتنہ اور فساد پیدا ہوتا ہے وہاں دہشت گردی بھی ضرور ہوتی ہے یا یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ فتنہ و فساد دہشت گردی کی جڑ ہیں اور فتنہ و فساد کی وجہ سے ہی دہشت گردی جنم لیتی ہے۔

دہشت گردی اور مسیحیت

ترمیم

آج کی مسیحیت جس بنیاد پر کھڑی ہے وہ انجیل (بائبل) پر ہے جس میں تحریف یعنی بہت ساری تبدیلیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کر دی گئیں ہیں جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان پر جو انجیل نازل کی وہ بھی سچی اور مقدس ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات بھی پر امن معاشرے کے لیے تھیں اور پرامن تھیں لیکن افسوس کچھ لوگوں نے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے اس مقدس انجیل (بائبل) میں بے شمار تبدیلیاں کر دیں جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ پورا مسیحی معاشرہ تبدیل ہوتا چلا گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل انجیل اور اصل تعلیمات مسیحی معاشرہ سے عنقا ہوگئیں ورنہ ہر نبی علیہ السلام نے امن کی بات کی محبت کی بات کی، بھائی چارے کی بات کی ہے۔ اگر موجودہ انجیل (بائبل) کا جو اب تبدیل ہو چکی ہے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تبدیل شدہ انجیل(بائبل) کیا تعلیم دیتی ہے تو افسوس ہوتا ہے یہ تبدیل شدہ انجیل (بائبل) متی باب نمبر 10 آیت 34: 36 میں کہتی ہے۔

″یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں، صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں کیونکہ میں اس لیے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کردوں اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے″[10]

اب اس تبدیل شدہ انجیل کے الفاظ پر ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ الفاظ کھلی دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتے تو اور کیا کرتے ہیں؟ ان الفاظ پر غور کریں کہ میں صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں کیا یہ الفاظ دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتے؟ یا آپ آیات کے ان الفاظ پر غور کریں کیونکہ میں اس لیے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کردوں اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔ کیا آدمی کو باپ سے جدا کرنا اور بیٹی کو ماں سے جدا کرنا یا بہو کو ساس سے جدا کرنا لوگوں میں خوف و ہراس اور دہشت گردی اور خوف پیدا نہیں کرتا۔ یہی وجہ کہ آج کا مسیحی اور یورپی معاشرہ تبدیل شدہ انجیل (بائبل) کی ان آیات کا مظہر نظر آتا ہے۔ کہ والدین اپنی اولاد کو جوان ہوتے ہی گھروں سے نکال دیتے ہیں، ان کی بیٹیاں رزق کی تلاش میں در در کے دھکے کھاتی ہیں، جسم فروشی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں اور عزت و وقار سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ بیٹے اسلحہ اٹھاتے ہیں اور گینگسٹر بنتے ہیں اور جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں اور منشیات کا کاروبار کرتے ہیں اور خود بھی منشیات کے عادی بنتے ہیں اور لوگوں کے اندر بھی منشیات کا زہر اتارتے ہیں۔ یہ دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ پورا مسیحی معاشرہ اور یورپ اس خوف اور دہشت کی فضا میں اپنی زندگی بسر کررہا ہے کہ ان کی نئی نسل کو منشیات کی لت نہ لگ جائے۔اسی طرح والدین کو اولاد اولڈ ہائوسز کی نذر کردیتی ہے جہاں والدین بے کیف زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اولاد کبھی والدین کو اولڈ ہائوسز میں پوچھنے بھی نہیں آتی والدین ان اولڈ ہائوسز میں عالم خوف اور دہشت میں اپنی زندگی کا آخری سفر تمام کرتے ہیں۔

تبدیل اور تحریف شدہ انجیل (بائبلٌ کی کتاب استشناء: باب نمبر 20 آیت نمبر 10 میں پے

’’جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا‘ اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باجگزار بن کر تیری خدمت کریں ا ور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کرڈالنا لیکن عورتوں اور بچوں اور چوپائے اور اس شہر کے سب مال لوٹ کر اپنے لیے رکھ لینا اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو‘ کھانا اور ان سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہر نہیں ہیں۔ ان قوموں کے شہروں جن کو خداوند تیرا خدا میراث کے طو رپر تجھے دیتا ہے‘ کسی ذی نفس کو زندہ نہ بچا رکھنابلکہ بالکل نیست و نابودکردینا۔‘‘[11]

باب نمبر 13 کی آیت نمبر پندرہ سولہ میں ہے

’’ تو تُو اس شہر کے باشندوں کو تلوار سے ضرور قتل کر ڈالنا اور وہاں کا سب کچھ اور چوپائے وغیرہ تلوار ہی سے نیست و نابود کردینا اور وہاں کی ساری لوٹ کو چوک کے بیچ جمع کرکے اس شہر کو اور وہاں کی لوٹ کو تنکا تنکا خداوند اپنے خدا کے حضور آگ سے جلا دینا اور وہ ہمیشہ کو ایک ڈھیر سا پڑا رہے او رپھر کبھی نہ ہٹایا جائے۔‘‘[12]

اگر اس تبدیل اور تحریف شدہ انجیل کا بغور مطالعہ کریں تو محسوس ہوتا کہ کتنے سخت اور دہشت گردانہ سوچ کے احکامات دیے گئے ہیں جیسا کہ مردوں کو قتل کردینا، عورتوں، بچوں، چوپائوں اور سب مال کو لوٹ کر اپنے لیے رکھ لینا، تلوار سے ضرور قتل کرنا، چوپائوں کو تلوار ہی سے نیست و نابود کردینا، لوٹ کے مال کو تنکا تنکا جلا دینا، صلح کی صورت میں شہر کے لوگوں کو اپنا باجگزار یعنی غلام اور خدمت گزار بنا لینا۔ سوچیے کیا یہ سب باتیں لوگوں میں خوف اور دہشت پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتیں۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس قسم کی تعلیم دے سکتے تھے یا اللہ تعالیٰ کی ہاک ذات اس قسم کے احکامات دے سکتی ہے؟ کسی بھی درد دل رکھنے والے انسان سے پوچھیں گے تو اس کا جواب نفی میں ہو گا کیونکہ اللہ کے کے تمام نبیوں، رسولوں اور پیغمبروں نے ہمیشہ لوگوں کو امن، محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بہت ہی رحیم (رحم کرنے والا ) اور بہت ہی کریم (کرم کرنے والا) ہے وہ کیسے اپنے بندوں کے جب تک ان کے گناہ بہت ہی حد سے نہ بڑھ جائیں ایسے احکامات دے سکتا ہے، کچھ مفاد پرست لوگوں نے اپنے برے مقاصد حاصل کرنے کے لیے انجیل(بائبل) کو تبدیل کیا اور اسی سوچ کا نتیجہ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کی صورت میں نکلا جس میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے، لاکھوں عورتیں بیوہ ہوئیں، لاکھوں بچے یتیم ہوئے، لاکھوں افراد زخمی اور اپاہج یا معذور ہوئے اور کھربوں ڈالر کی املاک کا نقصان ہوا۔ صرف جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرنے والے دو ایٹم بمبوں نے اتنی تباہی مچائی جس کی شاید ہی کوئی مثال اس دنیا میں پائی جائے۔ایک لاکھ کے قریب بے گناہ افراد مارے گئے کئی لاکھ افراد زخمی ہوئے اور ان ایٹم بمبوں کے اثرات یہ ہوئے کہ آج بھی ان شہروں میں معذور بچے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن آج بھی لوگوں نے سبق نہیں سیکھا کبھی ویتنام کو جنگ کی بھٹی میں جھونکا جاتا ہے تو کبھی بوسنیا میں مسلمانوں کو ظلم، بربریت اور دہشت گردی سے قتل کیا جاتا ہے، کبھی عراق پر تیل پر قبضہ کے لیے کیمیکل ہتھیاروں (یہ کیمیکل ہتھیار آج تک نہیں ملے) کا بہانہ بنا کر حملہ کیا جاتا ہے اور ہزاروں افراد کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ تو کبھی افغانستان پر حملہ کر کے موت کا بازار گرم کیا جاتا ہے تو کبھی طالبان اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں خود ہی پیدا کی جاتی ہیں اور دہشت گرد پیدا کیے جاتے ہیں اور جب یہ تنظیمیں خود کے گلے پڑتی ہیں تو تمام مسلمانوں کو مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے کہ سب مسلمان دہشت گرد ہیں۔ کبھی فلسطین میں بے گناہ لوگوں، بچوں اور عورتوں کا قتل عام کیا جاتا ہے تو کبھی کشمیر میں انڈیا بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتا ہے اور عورتوں کی عزتوں کو تار تار کرتا ہے تو کبھی برما میں مسلمانوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے یہ سب دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ انسان کے لیے سوچنے کامقام ہے۔ کاش کوئی سوچے اور سمجھے۔

دہشت گردی اور آزادی کی تحریکوں میں فرق

ترمیم

یہاں دہشت گردی اور آزادی کی تحریکوں میں فرق کو سمجھنا نہایت ہی ضرروی ہے جیسا کہ کشمیری عوام اپنے حقوق اور کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ رہے اور بھارت کی کشمیر میں موجود سات لاکھ فوج کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اب تک ہزاروں کشمیری بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں کشمیری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں پامال ہو چکی ہیں اور ہزاروں کشمیری بھارتی فوجیوں کی پیلٹ گن کی گولیوں کا نشانہ بن کر معذور ہو چکے ہیں اور سب سے بڑھ کر کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں لیکن بھارت کشمیر میں رائے شماری کرانے پر کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہورہا ہے اب کشمیری اپنے حقوق کے لیے ہھتیار اٹھاتے ہیں تو یہ دہشت گردی بالکل بھی نہیں کہلائے گی۔ اسی طرح فلسطین اور بیت المقدس پر اسرائیل نے غاضبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور اسرائیل آئے روز بمباری سے بے گناہ فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو شہید کرتا رہتا ہے اور اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینی شہید ہوتے رہتے ہیں اور فلسطینی اپنی آزادی اور حقوق کے لیے اسرائیل کے ریاستی جبر اور دہشت گردی کے خلاف جدو جہد کر رہے ہیں تو اسے دہشت گردی کسی بھی صورت میں نہیں کہا جا سکتا۔ نیلسن مینڈیلا نے جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف طویل جدوجہد کی ان کی تنظیم کو دہشت گرد تنظیم کہا جاتا تھا لیکن آج وہی دنیا نیلسن مینڈیلا کی عزت کرتی ہے۔ یہاں اس باریک نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے اور انسان اپنی آزادی کے لیے آخری حد تک جاتا ہے۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا اور لڑنا بالکل جائز اور قانونی ہے۔ دہشت گردی کا مقصد انسانوں کو زک پہنچا کر اپنے برے مقاصد کی تکمیل ہوتا ہے۔ دہشت گرد کسی دوسری طاقت کی پراکسی ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی صرف ایک صورت ہوتی ہے کہ وہ زیر زمین اور پوشیدہ رہ کر اپنا وجود منواتی ہے جبکہ آزادی کی جدو جہد کی کئی صورتیں اور کئی چہرے اور مہرے ہوتے ہیں۔جیسا کہ سیاسی، سفارتی اور عسکری وغیرہ۔ دہشت گرد جبر اور تشدد سے اپنے برے مقاصد اور اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ آزادی کے متوالے جبر و تشدد اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف لڑ کر اور ظلم کا مقابلہ کر کے اپنی آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی اور آزادی دونوں میں نیت کا فرق واضح ہے کہ دہشت گردی میں برے مقاصد کے حصول کے لیے بری نیت سے دہشت گردی کی جاتی ہے۔ جبکہ آزادی میں اچھی نیت سے اچھا مقصد اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور جدوجہد کرنا ہے۔ اپنی آزادی اور حقوق کے لیے لڑنا اور جدوجہد کرنا کسی بھی صورت میں دہشت گردی نہیں ہے لیکن امریکا، بھارت اور اسرائیل نے کشمیراور فلسطین کی آزادی کی تحریکوں کو دبانے کے لیے دہشت گردی کہنا شروع کر دیا جو سراسر غلط ہے۔ ہاں یہ باریک سا نکتہ اور فرق ضرور ذہن نشین ہونا چاہئیے کہ آزادی کی ان تحریکوں میں بے گناہ لوگوں کو نہیں مارنا چاہئیے کیونکہ انسانی ضمیر بے گناہ لوگوں کے مارے جانے کو گوارا نہیں کرتا۔ اسے دہشت گردی ہی کہا جائے گا۔ اس طرح جنگ کی صورت میں بمباری، میزائیل یا کسی اور حملہ کی صورت میں بے گناہ لوگوں کو مار دینا کولیٹرل ڈیمج نہیں کھلی دہشت گردی کہلائے گا۔ جیسا کہ امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسائے اور ہزاروں بے گناہ لوگوں کو مار دیا یہ ایک کھلی دہشت گردی تھی۔ اب بھی امریکا کولیٹرل ڈیمج کے نام پر بے گناہ لوگوں کو مارتا رہتا ہے اور ریاستی دہشت گردی کرتا رہتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ جیسا کہ امریکا نے جاپان کے شہروں پر ایٹم بم برسائے اور ہزاروں بے گناہ افراد کو مار کر اپنی فتح کا جشن منایا اور کسی نے نہیں پوچھا کہ ہزاروں بے گناہ افراد کو کس جرم میں مارا گیا۔ دہشت گردی اور آزادی کی تحریکوں میں فرق کی مثالیں اس طرح بھی دی جا سکتی ہیں۔ آزادی کی تحریک میں استعمار کے ظلم اور جبر کے خلاف جدوجہد کر کے آزادی حاصل کی جاتی ہے جیسا کہ نیلسن مینڈیلا نے سفید فام استعمار کے خلاف جدوجہد کی اور سفید فاموں کے تسلط سے نجات حاصل کی دنیا نے نیلسن مینڈیلا اور اس کی تنظیم کو دہشت گرد کہا لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسی دنیا نے نیلسن مینڈیلا کو امن کا نوبل انعام دیا۔ اسی طرح یاسر عرفات نے اسرائیلی استعمار کے خلاف جدو جہد کی اسی یاسر عرفات کو دنیا نے دہشت گرد کہا لیکن پھر دنیا کے لوگوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اسی یاسر عرفات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کی بھی دعوت دی گئی۔ خود امریکا نے برطانوی استعمار کے خلاف جنگ آزادی لڑی اور آزادی حاصل کی کہنے کو تو برطانیہ اس وقت امریکا کو دہشت گرد کہہ سکتا تھا لیکن شاید اس وقت تحریک آزادی اور دہشت گردی میں فرق کو سمجھا جاتا تھا اسی وجہ سے امریکا کو دہشت گرد نہیں کہا گیا۔ ہندوستان پر برطانیہ کا راج تھا کانگرس اور مسلم لیگ دونوں نے برطانوی تسلط سے نجات کے لیے جد و جہد کی برطانیہ نے حریت پسند لیڈروں کو جیل میں ڈالا جلاوطن کیا، تشدد کا نشانہ بنایا ایک سکھ بھگت سنگھ نے معروف معنوں میں دہشت گردی کا ارتکاب کیا لیکن بھارت بھگت سنگھ کو جنگ آزادی کا ہیرو سمجھتا ہے اور بھارت میں اسے شہید کہا جاتا ہے۔ بھگت سنگھ کی یاد گار فیروز پور سیکٹر میں قصر ہند کے سامنے تعمیر کی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی ایک طبقہ بھگت سنگھ کو قومی شہید کا درجہ دیتا ہے، افغانستان میں طالبان بیرونی یلغار کی مزاحمت کر رہے ہیں جسے پہلے پہل امریکا اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گرد کہا لیکن آج امریکا طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ اسی طرح اس دنیا میں اور بھی بہت سی مثالیں ہیں کہ جو کل کے دہشت گرد تھے وہ آج کے پر امن اور قابلِ عزت لوگ کیوں ہیں؟ یہ دنیا کے کرتا دھرتائوں کے لیے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آزادی اور دہشت گردی کے فرق کو اپنے برے مقاصد کے حصول کے لے لیے ختم کر دیا گیا ہے اسی لیے دنیا کے ان کرتا دھرتائوں کو یوٹرن لیتے ہوئے کل کے دہشت گردوں کو نوبل انعام دینے پڑتے ہیں اور ان کی عزت کرنی پڑتی ہے۔ مغرب امریکا، بھارت اور اسرائیل تحریک آزادی اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھنے کی جان بوجھ کر کوشش نہیں کرتے کیونکہ وہ کشمیر اور فلسطین میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو اپنے ظلم، بربریت، جبر اور طاقت کے زور پر دبانا چاہتے ہیں۔

دہشت گردی کا مذہب

ترمیم

لوگوں کا خیال ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو بادی النظر میں یہ بات درست نظر آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب، قوم، ملک، شہر، قصبہ، گائوں اور محلہ، میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے اعمال بھی اچھے برے ہوتے ہیں۔ دنیا میں دہشت گردی ایک برائی اور بہت بڑا گناہ تسلیم کی جاتی ہے اور یہ کسی بھی مذہب، قوم، ملک، شہر، قصبہ، گائوں اور محلہ کا کوئی فرد یا لوگ انفرادی یا اجتماعی طور پر کرسکتے ہیں بلکہ کرتے نظر آتے ہیں اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس لیے اسے کسی مذہب، قوم، ملک، شہر، قصبہ، گائوں اور محلہ پر لاگو کرنا درست عمل نہیں ہے یا کہنا کہ اس مذہب، قوم، ملک، شہر، قصبہ، گائوں محلہ، کے تمام افراد دہشت گردی کرتے ہیں کو بالکل بھی درست نہیں کہا جا سکتا جیساکہ یورپی ممالک اور امریکا اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب اور تمام مسلمانوں کو دہشت گرد کہتے ہیں۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا، رسول اور پیغمبر علیہ السلام لوگوں کی ہدایت اور انھیں سیدھا راستہ دکھانے کے لیے بھیجے اور ان سب انبیا رسول اور پیغمبر علیہ السلام نے لوگوں کو امن، محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان انبیا، رسولوں اور پیغمبروں(علیہ السلام) پر جو صحیفے اور چار آسمانی کتابیں توریت، زبور اور انجیل اور قرآن مجید نازل کیں ان سب میں دہشت گردی کا نہیں بلکہ امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا گیااور ان انبیا، رسولوں اور پیغمبروں (علیہ السلام) کے ذریعے جو مذاہب (یہودیت، عیسائیت اوراسلام) اس دنیا میں پھیلے ان میں بھی امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا گیا تاکہ لوگ سچائی، امن، محبت اور بھائی چارے اور ہدایت کا راستہ اپنائیں نہ کہ دہشت گردی، ظلم اور بربریت اور نفرت کا راستہ اپنائیں بھلا اللہ کیوں چاہے گا کہ لوگ ایک دوسرے کو قتل کریں، ایک دوسرے پر ظلم کریں دنیا میں فساد پیدا کریں، دہشت گردی کریں اور اس دنیا کو جہنم بنا دیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عمل کا اختیار دیا ہے اور اس میں انسان کو آزادی دی ہے کہ انسان چاہے تو اچھا عمل کرے جس کاصلہ اسے آخرت میں جنت کی صورت میں ملے گا اور چاہے تو برا عمل دہشت گردی، ظلم، قتل و غارت گری کرے جس کا صلہ اسے آخرت میں جہنم کی صورت میں ملے گا اور یہی انسان کا امتحان ہے جو انسان کو دینا ہے۔ اس کے علاوہ اور دیگر مذاہب میں بھی ان کے بانیان نے امن، محبت اور بھائی چارے کا ہی پیغام دیا ہے لیکن افسوس لوگوں نے توریت، زبور اور انجیل میں اپنے مفادات اور برے مقاصد کی خاطر بے شمار تبدیلیاں کیں اور اپنے مذاہب کو تبدیل کر کے رکھ دیا جس کی وجہ سے دہشت گردی، ظلم، قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم پوا جس نے پوری دنیا کو جہنم بنا دیا۔ لوگوں نے اللہ کے چنے ہوئے بندوں کو چھوڑ کر اپنے جیسے بندے چنے شروع کردیے جس سے دنیا میں دہشت گردی، ظلم، بربریت، مفاد پرستی، جھوٹ، فساد، نفرت، منافقت جیسی برائیاں بہت تیزی سے پھیلیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ایک نفسا نفسی کا عالم ہے۔ دہشت گردی، قتل و غارت گری، جھوٹ، ظلم، نفرت عام ہے۔ آج اسلام میں جو دہشت گردی نظر آتی ہے اگر غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں تو معلوم ہوتا ہے دہشت گردی اسی ذہنیت کے لوگ پھیلا رہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سخت ترین مخالف تھے۔ جنھوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے پیارے نواسے حضرت حسین کو ظلم اور دہشت گردی سے شہید کیا۔ ہاں مذہب اسلام ایک پرامن مذہب ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمتہ اللعالمین یعنی تمام جہانوں کے لیے رحمت کہا ہے۔ یہ اللہ کے پاک نبی ہی کی تعلیمات ہیں کہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس کے ماننے والے مسلمان تمام انبیا علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں اور اللہ کی طرف سے نازل کی گئی تمام آسمانی کتابوں توریت، زبور، انجیل اور قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن مجید ہی وہ واحد آسمانی کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ باقی جو کتابیں ہیں ان میں بے شمار تبدیلیاں کر دی گئیں ہیں۔ یہودیت، عسیائیت، ہندو مذہب، سکھ مذہب، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں بھی دہشت گردی عام ہے اور ان کی دہشت گردی نے بھی مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے لیکن اسلام سے خوف زدہ مغربی میڈیا اور اس کے حواری اسرائیل اور انڈیا صرف اسلام اور تمام مسلمانوں کو دہشت گرد کہتے نہیں تھکتے۔ جبکہ دہشت گردی کا کوئی مذہب اور کوئی علاقہ نہیں ہوتا وہ ہر مذہب ملت، قوم اور قبیلے میں پائی جاتی ہے۔ بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہو یا فلسطین میں عورتوں، بچوں اور بے گناہ انسانوں کو ظلم و بے دردی سے قتل کیا جائے، کریمیائی مسلمانوں پر ظلم و ستم یا عراق میں مسلمان قتل ہوں یا افغانستان میں مسلمان خون میں نہلائے جائیں یا کشمیر میں مسلمانوں کو قتل کیا جائے یا برما میں مسلمان قتل ہوں یا اسلامی لبادے میں چھپے ہوئے دہشت گرد مسلمانوں کے خون ناحق سے ہاتھ رنگیں کریں، قتل تو ہر طرف مسلمان ہی ہو رہے ہیں اور الزام بھی مسلمانوں پر ہی لگایا جارہا ہے کہ وہ دہشت گرد ہیں۔ ابھی حالیہ نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کی مسجد میں 50 مسلمانوں کی شہادت اسلامو فوبیا دہشت گردی کی بہت بڑی مثال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ شاید ظلم، انتقام، نفرت اور بربریت ہی دہشت گردی کا مذہب ہے۔

دہشت گردی کی وجوہات

ترمیم

کسی بھی برے عمل کو جاننے کے لیے کہ یہ عمل کیوں ہو رہا ہے اس کی وجوہات اور اسے کے اسباب کا جاننا بھی بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ اس کا سدِ باب کیا جاسکے۔ دہشت گردی بھی ایک ایسا قابل نفرت اور برا عمل ہے جو بہت تیزی سے اس دنیا میں پھیل رہی ہے اور اس کو جتنا زیادہ روکنے کی کوششش کی جا رہی وہ اتنا ہی تیزی سے پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ اس کا کوئی علاقہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مذہب۔ اس کی جڑیں ہر رنگ نسل اور ہر علاقہ، مذہب، قوم اور ملک میں موجود ہیں۔ بس جہاں پانی ملا اور کھاد ملی دہشت گردی کی جڑوں سے پتے، شاخیں اور تنا نکل آیا اور جلد ہی تناور درخت کی شکل اختیار کرگیا دنیا کے صاحبِ اختیار اور کرتا دھرتا لوگ دہشت گردی کے پتوں اور شاخوں کو تو کاٹنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں لیکن دہشت گردی کی جڑ کو ختم کرنے کی بالکل بھی کوشش نہیں کرتے یا کرنا نہیں چاہتے کیونکہ یہ صاحبِ اختیار اور کرتا دھرتا لوگ دہشت گردی کی آڑ لے کر مختلف ممالک پر اپنی طاقت کے بل پر حملہ کرتے ہیں اور ان کو تباہ و برباد کرتے ہیں ان کے وسائل پر قبضہ کرتے ہیں اور ان ممالک کو دوبارہ تعمیر کرنے کے نام پر ان ممالک سے اپنے ملک کی کمپنیوں کو بڑے بڑے ٹھیکے دلواتے ہیں اور خوب منافع کماتے ہیں اور اپنی معاشی حالت کو بہتر سے بہتر بناتے ہیں۔ اسی طرح دہشت گرد تنظیمیں پہلے خود قائم کرواتے ہیں اور انھیں اسلحہ فروخت کرتے ہیں اور خوب منافع کماتے ہیں اور پھر ان دہشت گرد تنظیموں کو خود ہی ختم کرنے کا ڈراما رچاتے ہیں اور اس طرح یہ ممالک امیر سے امیر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یہ صاحب اختیار اور کرتا دھرتا ممالک مسلمانوں کے ساتھ یہ کھیل کھیل رہے ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمان خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں کاش مسلمان سوچیں اور سمجھیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی جڑ سے پھر پتے اور شاخیں پھوٹ پڑتی ہیں اور پھر دہشت گردی کا پودا پھوٹ کر ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرجاتا ہے اسی لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کیوں پھیلتی ہے اس کے اسباب اور وجوہات کا علم حاصل کیا جائے اور ان اسباب اور وجوہات کا علم حاصل ہونے کے بعد دہشت گردی کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی پھیلنے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔

غربت

ترمیم

دہشت گردی پھیلنے کی وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ غربت ہے کیونکہ آج کل دنیا میں سرمایہ دارنہ نظام قائم ہے جس کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس وجہ سے دنیا کے معاشروں میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ امیر آدمی کے لیے دنیا کی تمام نعمتیں موجود ہیں۔ لیکن غریب کے لیے دو وقت کی روٹی بھی بہت مشکل ہے۔ نہ ہی غریب کے بچوں کو صحت کی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی مناسب تعلیم۔ غریب کے بچوں کو اکثر بھوکا ہی سونا پڑتا ہے۔ اس لیے جن ممالک میں غربت ہے وہاں لوگ دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن جب ان کی آواز کہیں نہیں سنی جاتی تو وہ اسلحہ اٹھاتے ہیں اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں اور یہیں سے دہشت گردی شروع ہوتی ہے اور وہ عناصر ایسے غربت کے مارے لوگوں کو اپنے برے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جو دنیا میں طاقت اور جبر کے ذریعے اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عناصر اور بڑی طاقتیں چند ڈالروں اور روپوں کے عوض ان غربت کے مارے لوگوں کو خرید لیتی ہیں اور پھران سے دہشت گردی جیسا برا فعل کرواتی ہیں ان غریب لوگوں کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ یہ مکروہ عناصر ان بھوکے ننگے لوگوں کو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں تم ہمارا ساتھ دو گے تو ہم تمھاری غربت کو ختم کریں گے اور تمھارے اندر خوش حالی لائیں گے۔ بھوک کیونکہ ان غریب لوگوں کو بہت ستاتی ہے تو یہ غریب لوگ بھی سوچتے ہیں کہ چلو پیٹ بھرنے کا ذریعہ تو پیدا ہورہا ہے۔ ہمارے گھر کی بھوک تو مٹتی ہے۔ اس وقت یہ بالکل بھی نہیں سوچتے کہ آخر کار ان کا انجام موت ہی ہو گا اگر سوچتے بھی ہوں گے تو شاید یہ سوچتے ہوں گے کہ دنیا میں ان کے اور ان کے گھر کے لوگوں کے کچھ دن تو اچھے گذر جائیں گے اور اگر موت آ بھی گئی تو اس بے درد دنیا سے ان کو نجات مل جائے گی کیونکہ دنیا انھیں بہت ستاتی ہے بہت رلاتی ہے بھوک نے ان کے وجود کو بہت ہلایا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ دہشت گردی جیسے برے فعل اور گناہ پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ کاش! وہ یہ سوچتے کہ اللہ انھیں آزما رہا ہے کیونکہ کسی کو وہ دولت دے کو آزماتا ہے اور کسی کو وہ غربت دے کر آزماتا ہے۔ دونوں ہی آزمائش کی صورتیں ہیں۔ اب یہ لوگوں پر ہے کہ وہ اس کی آزمائش پر کتنا پورا اترتے ہیں۔ دولتمند اپنی دولت غریبوں کی فلاح کے لیے استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کی آزمائش پر پورا اترتے ہیں اور غریب اپنی غربت پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ کی آزمائش پر پورا اترتے ہیں۔

نوٹ:بھوک اور غربت انسان کو کس طرح ستاتی اس کے بارے میں ایک نظم ملاحظہ کرنے کے لیے تبادلۂ خیال صفحہ دیکھیں۔

اب ذرا انصاف سے سوچیں کہ غربت اور بھوک انسان کو کس طرح ستاتی اور رلاتی ہے تو پھر ذرا تصور کریں کہ آج کے اس معاشرے میں جہاں خود غرضی، بے حسی، لالچ اور حرص و ہوس نے ڈیرے ڈال رکھیں ہوں وہاں غریب انسان کے لیے اللہ کی آزمائش سے گذرنا کس قدر مشکل ترین کام ہے غربت اور بھوک و ننگ ایسی بڑی مصیبتیں ہیں جو ان کو ہر وہ کام کرنے پر مجبور کردیتی ہیں جس سے ان کے پیٹ کی آگ بھجھ سکے وہ اپنے پیٹ کی آگ بھرنے کے لیے۔ دہشت گردی پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردی سے ان کے انتقام کی آگ کو بھی تسکین ملتی ہے۔ کیا دنیا کے کرتا دھرتا دنیا سے غربت کو ختم کرنے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا سے غربت کے خاتمے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ سپر طاقتیں کیوں نہیں اپنے خزانوں کے منہ کھولتیں کہ دنیا سے غربت ک خاتمہ ہو۔ دنیا میں بے شمار لوگ قحط اور بھوک سے مر جاتے ہیں لیکن دنیا کے ٹھیکیداروں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ آج بھی پاکستان کے تھر کے علاقے میں معصوم بچے بھوک سے مر جاتے ہیں۔ لیکن کسی کو کوئی احساس نہیں ہوتا۔ ایتھوپیا، صومالیہ، کمبوڈیا، شمالی کوریا اور دیگر ممالک میں لاکھوں افراد بھوک اور قحط کے ہاتھوں مارے گئے لیکن دنیا نے غربت کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کیے تو انتہائی افسوس کے ساتھ عرض خدمت ہے کہ لالی پاپ کے علاوہ کوئی ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آئے تو پھر بھوکا انسان اپنی بھوک کو مٹانے کے لیے ہتھیار نہیں اٹھائے گا تو اور کیا کرے گا۔ انتہائی معذرت کے ساتھ وہ تو یہ چاہے گا کہ ہر اس فرد کو بھی دنیا سے مٹا دے جو اس کی بھوک کا سبب ہے اور جس نے اس کی بھوک اور ننگ کے لیے کچھ نہیں کیا اور اس کو بھوک سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور جب بھوک اور غربت کے ستائے ہوئے لوگ دہشت گردی کروانے والوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر غلط راستے کا انتخاب کرتے ہوئے ہتھیار اتھاتے ہیں تو بھی موت ہی ان کا مقدر بنتی ہے۔ اور بھوک میں بھی موت ہی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ کاش یہ بھوک مارے لوگ صبر کرنا سیکھیں اور اللہ کہ آزمائش میں پورا اتریں تو اللہ کے نزدیک ان کے درجات بھی بلند ہوں گے اور یہ دہشت گردی کروانے والوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں بنیں گے۔ اسی طرح امیروں کی بھی یہ آزمائش ہے کہ وہ اپنی دولت کو اپنے آرام اور اپنی عیاشیوں شباب و کباب کی محفلوں کو سجانے کی بجائے غریبوں پر خرچ کریں ان کا خیال رکھیں ان کے لیے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنوائیں جہاں غریبوں کے بچے مفت تعلیم حاصل کر سکیں، ان کے لیے ہسپتال بنوائیں جہاں غریبوں کا مفت علاج ہو سکے امیروں کا یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کو بھیک دے کر بھکاری نہ بنائیں اور ان کی عزت نفس کے ساتھ نہ کھیلیں بلکہ ان کی مدد اس طرح کریں کہ غریب اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں تو اللہ کے ہاں ان امیروں کے درجات بھی بلند ہوں گے اور جنت میں انھیں اعلیٰ مقام عطاء ہو گا اور وہ اللہ کی آزمائش میں بھی پورا اتریں گے۔ اللہ نے ایک طرف غریبوں کو صبر کی تلقین کی ہے تو دوسری طرف اللہ نے امیروں کو غریبوں پر اپنا مال خرچ کرنے کی تاکید کی ہے جو اللہ نے ہی انھیں عطاء کیا ہے۔ تاکہ معاشرے میں دہشت گردی اور فتنہ و فساد نہ پھیلے۔ غریب صبر کریں اور دہشت گردی کے غلط راستے کا انتخاب نہ کریں تو اللہ سے بہت بڑا اجر پائیں گے اور جنت میں اعلیٰ مقام پائیں گے۔ اسی طرح امیر غریبوں پر مال خرچ کریں جو اللہ نے انھیں عطا کیا ہے اور غریبوں کو اپنا غلام سمجھنے کی بجائے ان کا خیال رکھیں تو وہ بھی اللہ سے بہت بڑا اجر پائیں گے اور اگر امیر اور غریب اللہ کی اس آزمائش میں پورا اتر گئے تو دنیا سے دہشت گردی جڑ سے اکھڑ جائے گی اور فتنہ و فساد ختم ہوجائے گا۔ صرف اچھی نیت اور دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔

بے روز گاری

ترمیم

دنیا میں دہشت گردی پھیلنے کی ایک بڑی وجہ بے روزگای ہے۔ والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلواتے تاکہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اچھا روزگار حاصل کرسکیں۔ مائٰیں اس مقصد کے لیے اپنا زیور گروی رکھ دیتی ہیں یا فروخت کر دیتی ہیں اور باپ اپنا مکان گروی رکھ دیتا ہے یا فروخت کر دیتا ہے۔ والدین کا خیال ہوتا ہے کہ ان کے بچے ڈاکٹر، انجینیئر، وکیل یا ایم بی اے کی ڈگری حاصل کر کے بہترین روزگار حاصل کریں گے یا فوج میں انھیں کمیشن مل جائے گا، بچے بھی خوب محنت کرتے ہیں اور میٹرک اور ایف ایس سی میں اچھے نمبر حاصل کر تے ہیں کہ انھیں داخلہ مل جائے لیکن افسوس نمبر حاصل کرنے کے بعد والدین اور بچوں کے سامنے یہ تلخ حقیقت آتی ہے کہ ابھی ہنوز دلی دور است کیونکہ والدین کی جمع پونجی انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لیے اکیڈمیوں کے پیٹ میں اتر جاتی ہے آخر خدا خدا کر کے انٹری ٹیسٹ کا مرحلہ آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بازی تو اے اور او لیولز والے مار گئے ہیں۔ یا وہ بچے داخلہ کے اہل قرار پائے ہیں جن کی جیب میں پیسہ تھا کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ انٹری ٹیسٹ سے ایک دن پہلے انٹری ٹیسٹ کا پرچہ آئوٹ ہو کر ان بچوں تک پہنچ گیا جن کے پاس اس پرچے کو خریدنے کی طاقت تھی یا سفارش تھی اور جن کے پاس طاقت نہیں تھی اور سفارش نہیں تھی وہ بے چارے انٹری ٹیسٹ میں رہ جاتے ہیں اور اپنا سب کچھ لٹا کر پھر اور لٹتے ہیں اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں یا اپنا سب کچھ لٹاتے ہوئے چین اور روس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں اور جن کے پاس پیسہ نہیں ہوتا وہ بچے اعلیٰ قابلیت رکھنے کے باوجود کچھ بھی نہیں کرسکتے اور نظام کو برا بھلا کہتے ہیں اور رو پیٹ کر چپ ہوجاتے ہیں اور ریڑھی لگانے پر مجبور ہوتے ہیں یا کسی دفتر یا فیکٹری میں چپڑاسی یا کلرکی جیسی چھوٹی موٹی نوکری کرلیتے ہیں یا پھر مزدوری کرتے ہیں اور اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے ہیں۔ یہ وہ ابتدا ہے جہاں بچوں کے ذہن میں اس بے انصافی کے خلاف بغاوت جنم لینا شروع کرتی ہے اور یہیں سے دہشت گردی کا وجود بچوں کے ذہنوں میں جڑ پکڑنا شروع کرتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ اپنا سب کچھ لٹا کر کسی نہ کسی طرح اعلیٰ تعلیم کی ڈگری حاصل کرلیتے ہیں اور والدین اور بچے خوش ہوتے ہیں کہ اب ابہیں بہترین روزگار مل جائیگا ان کے معاشی حالات اب درست ہو جائیں گے۔ ان کی بہنوں کے اب ہاتھ پیلے ہوجائیں گے اور وہ اپنے پیا کے گھر رخصت ہو جائیں گی۔ تو یہ تلخ اور خوفناک حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ روز گار کی تلاش میں ان کے ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور ایک فیکٹری سے دوسری فیکٹری چکر لگنا شروع ہوتے ہیں یہاں بھی یہی مصیبت سامنے ہوتی ہے کہ جن کے پاس سفارش اور چمک ہوتی ہے ان کو تو باآسانی نوکری (جاب) مل جاتی ہے اور جن بے چاروں کے پاس سفارش اور چمک نہیں ہوتی ان کو کہا جاتا ہے کہ پانچ سال یا دس سال کا تجربہ لائو تو نوکری مل جائے گی۔ اب ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ نوکری دو گے تو تجربہ حاصل ہو گا جب نوکری ہی نہیں دو گے تو تجربہ کہاں سے آئے گا۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب بچوں میں بغاوت اپنے پورے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ کیونکہ ان کے والدین اپنا سب کچھ اپنے ان بچوں کی تعلیم پر لٹا چکے ہوتے ہیں لیکن اتنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود یہ بچے روز گار سے محروم ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی بغاوت کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے کہ اپنی ڈگری کو جلا دیا جاتا ہے کہ ایسی ڈگری حاصل کرنے کا کیا فائدہ جس کو حاصل کرنے کے باوجود بے روزگاری ان کا منہ چڑا رہی ہوتی ہے۔ اور پھر عالم مایوسی میں گھر میں فاقہ مستی شروع ہوجاتی ہے۔ اب ظاہر ہے پیٹ تو کھانے کو مانگتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ ان بے روزگار بچوں میں مجرمانہ اور دہشت گردانہ سوچ جنم لیتی ہے اور جڑ پکڑتی ہے۔ اور دہشت گردی کروانے والے عناصر جو ایسے نوجوانوں کی تاک میں پہلے ہی ہوتے ہیں ان بے روز گار نوجوانوں کے آنسو پوچھنے آجاتے ہیں اور ان کا سہارا بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے انتقام کی آگ کو اور ہوا دیتے ہوئے انھیں سماجی ناانصافی کے خلاف بھڑکاتے ہیں اور اور کہتے ہیں ہم ہی اصلاح کرنے والے ہیں ہم ہی انصاف لائیں گے تم ہمارے ساتھ شامل ہو جائو اس طرح ان نوجوانوں کا دہشت گردی اور موت کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے دہشت گرد اعلیٰ تعلیم یافتہ نظر آتے ہیں۔ وہ ممالک اور معاشرے جہاں میرٹ کا نظام قائم ہے اور نوکری آسانی سے مل جاتی ہے وہاں دہشت گردی کم ہوتی ہے لیکن وہ ممالک اور معاشرے جہاں میرٹ اور انصاف کا کوئی نظام قائم نہیں ہے اور نوکری کا ملنا بہت ہی مشکل ہے۔ جن ممالک میں جعلی ڈگریوں پر اعلیٰ عہدے مل جاتے ہیں وہاں دہشت گردی بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ان ممالک اور معاشروں پر پیسہ پھینک تماشا دیکھ والی مثال فٹ بیٹھتی ہے۔ جن کی جیب میں پیسہ ہوتا ہے وہ ہر عہدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ نوکری آسانی سے حاصل کر لیتے ہیں اور ظاہر ہے جن کی جیب خالی ہوتی ہے وہ یا تو رو پیٹ کر چپ ہوجاتے ہیں یا پھر غلط راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور مجرم بن جاتے ہیں یا پھر دیشت گردی کروانے والوں کا کھلونا بن کر دہشت گردی کرتے ہیں اور معاشرے سے انتقام لیتے ہیں۔ اگر ان ممالک اور معاشروں میں میرٹ کا نظام قائم کر دیا جائے اور سفارش اور جعلی ڈگریوں پر نوکریاں اور اعلیٰ عہدوں کی بندر بانٹ نہ کی جائے تو دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

مذہب کااستعمال اور فرقہ واریت

ترمیم

دہشت گردی پھیلنے کی وجوہات میں سے ایک اہم ترین وجہ مذہب کا غلط استعمال اور ان کا آپس میں ٹکرائو اور فرقہ واریت ہے۔ اس وقت دنیا میں جو بڑے مذاہب ہیں ان میں اسلام، عیسائیت اور یہودیت ہیں۔ اس کے علاوہ ہندو مذہب، بدھ مت، جین مت، سکھ مذہب، پارسی مذہب اور دیگر بہت سے مذاہب ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مذاہب کے بانیوں نے دنیا کے لوگوں کو امن و آشتی کی تعلیم دی لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کے ان مذاہب کے ماننے والوں نے اپنے مفادات کی خاطر اور برے مقاصد اور اپنے اقتدار اور عام لوگوں پر اپنی حاکمیت قائم کرنے اور انھیں اپنا غلام بنانے اور انھیں کیڑے مکوڑے سمجھنے کی خاطر، اپنی طاقت اور دولت کے بل بوتے پر ان مذاہب کے بانیان کی تعلیمات کو جان بوجھ کر یا تو بھلا دیا یا ان میں تبدیلیاں کر دیں اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک صورت حال یہ پیدا ہوئی کی ہر مذہب کے لوگوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا لی اس طرح ہر مذہب میں فرقوں نے جنم لیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر مذہب اور فرقے نے خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط کہنا شروع کر دیا اور سوچے سمجھے بغیر اپنی بات پر شدت اور ہٹ دھرمی سے قائم ہو گئے۔ مذہب کے اس غلط استعمال اور ٹکرائو کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں انتہا پسندی اور شدت پسندی نے جنم لیا اور اس انتہا پسندی اور شدت پسندی کی کوکھ سے دہشت گردی نے جنم لیا۔ ان مذاہب اور فرقوں کے رہنماؤں اور علماء نے اپنے پیٹ اور اقتدار اور حاکمیت کی خاطر نفرت کا وہ بازار گرم کیا کہ ہر انسان کا اعتبار ایک دوسرے پر سے ختم ہو گیا عقل اور دلیل کی کوئی بات نہیں سنی گئی اور کسی نے عقل اور دلیل کی بات کرنے کی کوشش بھی کی تو واجب القتل قرار پایا اور اس طرح کروڑوں انسان مذہب کے غلط استعمال اور فرقہ واریت سے پھوٹنے والی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر موت کی ابدی نیند سو گئے۔ کسی نے کافر کافر کا راگ الاپا تو کسی نے لعنت لعنت کی گردان کی اور اس وقت ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور لوگ ایک دوسرے کو اس طرح دہشت گردی سے مار رہے ہیں کہ مرنے والے کو علم نہیں کہ اسے کیوں مارا گیا اور نہ ہی مارنے والا جانتا ہے کہ اس نے کیوں مارا اور سب سے زیادہ افسوس کا عالم تو یہ ہے کہ لوگ مذہب کا لبادہ اوڑھ کو ایک دوسرے کو بے دردی اور دہشت گردی سے قتل کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں کہتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو فسادی ہیں۔

دنیا میں مذہب کا اور فرقہ واریت کا غلط استعمال ہرجگہ اور ہر معاشرے میں ہوتا ہے ہاں یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ اس کا استعمال کہیں کم ہوتا ہے اور کہیں زیادہ۔ عیسائی، یہودی اور ہندو معاشرہ اسلامو فوبیا میں مبتلا ہے اور ان معاشروں میں بسنے والے مسلمان خوف اور دہشت کے عالم میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور عیسائی، یہودی اور ہندو انتہا پسندوں اور اور شدت پسندوں کی دہشست گردی کا نشانہ بننتے رہتے ہیں۔ ان معاشروں کے انتہا پسندوں نے بھی اپنے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور اس کی آڑ میں دہشت گردی کرتے ہیں اور اپنے مذاہب کو بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسلام میں موجود مذہبی انتہا پسندوں نے بھی اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور یہ بھی اپنے مذہب کا غلط استعمال کرتے ہوئے نہ صرف عیسائیوں، یہودیوں، ہندوئوں کو اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ اپنے مذہب کے دوسرے فرقوں کے لوگوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان سب مذاہب کے انتہا پسندوں میں جو بات مشترک پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتے ہیں اور اس شدید نفرت کی وجہ یہ ہے کہ یہ خود کو بالکل پاک صاف اور سچا سمجھتے ہیں لیکن دوسروں کو غلط اور جھوٹا سمجھتے ہیں ایک دوسرے کے مذہب پر لعن طعن کرتے ہیں جبکہ مذہب کا کوئی قصور نہیں ہوتا مذاہب اور ان کے بانیان نے تو ہمیشہ امن، محبت اور رواداری کا سبق دیا ہے لیکن انسانوں کا غلط عمل اقتدار، دولت اور حاکمیت کا نشہ انھیں دہشت گردی، قتل و غارت گری اور فساد پر اکساتا رہتا ہے، ایک دوسرے کے خلاف اندر کی نفرت ان مذاہب کی آڑ میں چھپے ہوئے انتہا پسندوں کو غلط راستے پر لے جاتی ہے۔ پیٹ میں بھڑکتی ہوئی آگ سے مجبور انتہا پسند مذپبی رہنما دماغ سے نہیں پیٹ سے سوچتے ہیں۔ نفرت کی آگ بھڑکاتے ہیں اور اپنی چرب زبانی سے جھوٹ کو اس طرح سچ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ عام لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں اور ان کے غلط راستے پر چل پڑتے ہیں۔ یہ انتہا پسند مذہبی رہنما خود تو اپنے عیش کدوں میں آرام اور سکون کی زندگی گزارتے ہیں لیکن پوری دنیا کو فساد اور دہشت گردی کی نذر کردیتے ہیں۔ دراصل یہی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں ہی فرماتا ہے کہ یہی لوگ ہیں جو فسادی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کے لیے مذہب کے غلط استعمال کو ختم کیا جائے اور دہشت گردی کے لیے مذہب کی آڑ میں نہ چھپا جائے تاکہ مذہب بدنام نہ ہو کیونکہ مذہب کا کوئی قصور نہیں ہے۔ قصور تو غلط انسانوں کے غلط اعمال کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مذہب سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ مغربی میڈیا مذہب کو غلط کہتا ہے اور یہ پروپیگنڈا بہت زور و شور سے کرتا ہے۔ اللہ سب انسانوں کو ہدایت دے اور انسانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ ہدایت کا راستہ اپنائیں اور اپنے چنے ہوئے انسانوں کی بجائے اللہ کے چنے ہوئے اور منتخب بندوں کی پیروی کریں تو یہ دنیا خود ہی جنت بن جائے گی۔

دنیا کا اندھا قانون

ترمیم

دہشت گردی پھیلنے کی وجہ میں سے ایک وجہ دنیا کا اندھا قانون بھی ہے۔ دنیا کا قانون جرم پر تو سزا دیتا ہے لیکن وہ یہ بالکل نہیں دیکھتا کہ جرم کیوں ہوا ہے ذرا سوچیے کہ اگر کسی کی ماں، بیٹی یا بہن کی عزت لٹ رہی ہو تو وہ کیا کرے گا؟ کیا وہ بے شرمی، بے حیائی اور بے غیرتی کا راستہ اپناتے ہوئے خاموشی اختیار کرے گا یا پھر اس عزت لوٹنے والے کا مقابلہ کرے گااور اسے موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ لیکن افسوس اس دنیا کا اندھا قانون یہ بالکل نہیں دیکھتا کی قتل کرنے والے شخص نے اپنی ماں، بیٹی یا بہن کی عزت بچاتے ہوئے قتل کیا ہے۔ دنیا کے اس اندھے قانون کی نظر میں تو قتل ہوا ہے جس کی سزا اسے قتل کے جرم میں دے دی جاتی ہے۔ اس بے انصافی کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں بغاوت کے جراثیم پھیلتے ہیں اور انسانوں کو انجام کار دہشت گردی کی طرف لے جاتے ہیں، دہشت گردی کروانے والے اندھے قانون کے ستائے ہوئے لوگوں کو با آسانی اپنے غلط راستے پر ڈالتے ہوئے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اسی طرح اگر کوئی شخص کئی دن سے بھوکا ہو اور وہ بھوک سے تنگ آکر اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے کسی پھل والے کی دکان سے پھل چوری کرلے یا کسی تندور پر سے روٹی چوری کرلے تو ہماری دنیا کا اندھا قانون اسے چوری کے جرم میں سزا سنا دیتا ہے۔ وہ بالکل یہ نہیں دیکھتا کہ اس شخص نے چوری کیوں کی ہے؟، قانون کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ چوری عالم مجبوری میں بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر کی گئی ہے۔ دنیا کا اندھا قانون صرف یہ دیکھتا ہے کہ چوری کا جرم ہوا ہے اور وہ چوری کے جرم کی سزا سنا دیتا ہے۔ اندھے قانون کو کسی شخص کی مجبوری، بے بسی اور بھوک سے کوئی غرض نہیں ہوتی اب سوچیں کہ کیا اس قسم کے واقعات بغاوت کو جنم نہیں دیتے۔ اور کیا لوگ انجام کار دہشت گردی کرنے پر مجبور نہیں ہوجاتے کیونکہ ریاست ایسے مجبور لوگوں کو بالکل بھی سہارا نہیں دیتی،

اسی طرح کوئی شخص اپنے ہاتھ میں اعلیٰ ڈگری لے کر ایک دفتر سے دوسرے دفتر کا چکر کاٹے۔ یا ایک کارخانے سے دوسرے کارخانے میں نوکری کے لیے انٹرویو دے یا ایک ادارے سے دوسرے ادارے میں نوکری کی بھیک مانگے لیکن کوئی اسے نوکری نہ دے اور اس کے گھر میں قافوں کی نوبت آجائے تو پھر وہ کیا کرے؟ کیا وہ کسی دریا یا سمندر میں چھلانگ لگا کر ڈوب مرے یا کیا وہ کسی پہاڑ یا کسی اونچے مینار سے چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دے؟ یا پھر دہشت گردی کروانے والوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر دہشت گردی کرے اور کسی اندھی گولی کا نشانہ بن کو موت کی آغوش میں چلا جائے اور دنیا کے غموں سے نجات پا جائے یا پھر وہ گرفتار ہو اور دنیا کے اندھے قانون کے ذریعے اپنے جرم کی سزا پائے کیونکہ اندھا قانون تو یہ نہیں دیکھتا کہ وہ دہشت گرد کیوں بنا۔ اسے کس مجبوری نے دہشت گرد بننے پر مجبور کیا۔ کاش دنیا کا قانون اندھا نہ ہو اور وہ جرم پر نہیں جرم کی وجہ پر سزا دے تو مجرم اور دیشت گرد پیدا نہیں ہوں گے۔

انصاف کا نہ ملنا

ترمیم

انصاف کا نہ ملنا بھیدہشت گردی پھیلنے کی ایک وجہ ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک اور معاشرے ایسے ہیں جہاں لوگوں کو انصاف نہیں ملتا اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایک تو انصاف نہیں ملتا اور اس پر سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اگر انصاف ملتا بھی ہے تو مقدمات سالوں چلتے رہتے ہیں اسی لیے یہ مثال مشہور ہے کہ اگر دادا اپنی جائداد کے حصول کے لیے مقدمہ کرتا ہے تو اس مقدمے کا فیصلہ پوتے کے دور میں جاکر ہوتا ہے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ وکیل ان مقدمات کو اپنی زیادہ سے زیادہ فیس کے لالچ میں یا مخالف پارٹی کی خواہش کے پیش نظر مقدمات کو لمبا کھینچتے ہیں اور اتنے تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں کہ یہ مقدمات سالوں چلتے رہتے ہیں اور تاریخ پر تاریخ ملتی رہتی ہے۔ لوگ جن کی آخری امید عدالت ہوتی ہے اور وہ انصاف کی امید لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں لیکن انھیں فوری اور سستا انصاف نہیں ملتا لوگ مقدمات کے فیصلے کے انتظار میں سوکھ جاتے ہیں اور اپنی ساری جمع پونچی وکیلوں کے پیٹ میں اتار دیتے ہیں اور دوسرے عدالتی اخراجات علحیدہ ان کے سر پر تلوار کی طرح لٹکتے ہیں۔ جتنی بڑی عدالت ہوتی ہے اتنے ہی زیادہ اخراجات ہوتے ہیں اپنا سب کچھ لٹا دینے کے باوجود انصاف کی دیوی عام آدمی سے روٹھی ہی رہتی ہے۔ طاقت ور اور قاتل، عدالتوں سے صاف بچ نکلتے ہیں اور دندناتے پھرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے لوگ خود ہی اپنا انصاف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور دیشت گردی کا رخ اخیتار کرتے ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹائون 17 جون 2014 کو ہوا جس میں لاہور میں دن دہاڑے ریاستی دہشت گردی کے نتیجہ میں 14 افراد کو پولیس نے گولیوں سے بھون کو شہید کر دیا گیا اور سو افراد کو زخمی کر دیا گیا۔ احتجاج ہوئے، دھرنے ہوئے عوام نے ریاست کا تشدد برداشت کیا تب کہیں جاکر تو آرمی چیف کی مداخلت سے ایف آئی آر کٹی۔ میڈیا کی پولیس کی گولیاں چلاتے ہوئے ویڈیوز موجود ہیں لیکن افسوس قاتل آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں کئی سال بیت چکے ہیں لیکن انصاف کہیں نظر نہیں آتا اور آج بھی اس واقع کے مقتولین کے لواحقین انصاف کی تلاش میں عدالتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن انصاف کی یہ کیفیت ہے کہ ہنوز دلی دور است اب سوچیں جب لوگوں کو انصاف نہیں ملے کا تو کیا ان میں بغاوت جنم نہیں لے گی؟ لوگ اپنا انصاف خود کرنا شروع نہیں کر دیں گے اور دہشت گردی کا راستہ نہیں اپنائیں گے وہ پھر اسلحہ نہیں اٹھائیں گے تو اور کیا کریں گے؟ پوری دنیا اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ لوگوں کو انصاف نہیں ملتا اور پھر وہ اپنا انصاف خود کرنے بیٹھ جاتے ہیں اب ہر شخص میں صبر نہیں ہوتا ہر شخص میں تو برداشت کی اتنی قوت نہیں ہوتی جتنی کہ سانحہ ماڈل تائون کے مقتولین کے لواحیقن نے دکھائی ہے آج بھی وہ عدالتوں سے انصاف کی بھیک مانگ رہے ہیں لیکن انصاف ان سے کوسوں دور نظر آتا ہے کیونکہ دنیا کے بہت سے ممالک اور معاشروں میں ظاقت ور کے لیے قانون اور ہے اور کمزور کے لیے قانون اور ہے۔

طاقتور شخص کے لیے جیل گھر جیسی ہی ہوتی ہے اسے وہاں ہر قسم کی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ بیمار پڑ جائے تو فوری علاج ہوتا ہے۔ پھر طاقت ور شخص کے نخرے علحیدہ ہوتے ہیں کہ اس ہسپتال سے علاج نہیں کروانا اس جیل میں نہیں رہنا، یہ نہیں کھانا وہ نہیں کھانا۔ طاقتور شخص کی ضمانت قبل از گرفتاری یا حفاظتی ضمانت کی درخواست فوری طور پر ایمرجنسی میں سنی جاتی ہے اور منظور بھی فوری طور پر ہوجاتی ہے جبکہ کہ کمزور شخص جیل میں ہی سڑتا رہتا ہے اور مچھروں سے ہی مقابلہ کرتا رہتا ہے۔ علاج کی سہولت واجبی ہوتی جیل اس کے لیے خوف اور دہشت کی علامت ہوتی ہے۔ کمزور شخص اگر ضمانت قبل از گرفتاری یا حفاظتی ضمانت کروانا چاہے تو اسے لمبی تاریخ مل جاتی ہے۔ انصاف کا یہ دوہرا معیار عام آدمی میں بغاوت پیدا کرتا ہے جو اسے رفتہ رفتہ دہشت گردی کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر طاقت ور اور کمزور دونوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہو اور لوگوں کو وقت پر انصاف ملے تو لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد بڑھے گا اور لوگ جرم اور دہشت گردی کی طرف جانے کی بجائے امن اور قانون کا راستہ اپنائیں گے اور معاشرہ بھی فتنہ و فساد اور دہشت گردی سے محفوظ رہے گا۔

تعلیم کی کمی اور جنت کا خواب

ترمیم

دنیا میں دہشت گردی پھیلنے کی ایک بڑی وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں غربت کی وجہ سے یا سیاسی وجوہات کی وجہ سے تعلیم کی بہت زیادہ کمی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی سوچ میں بھی کمی پائی جاتی ہے لوگ ذہنی پسماندگی کی وجہ سے دہشت گردی کروانے والوں کا آسان ٹارگٹ ہوتے ہیں وہ باآسانی دہشت گردی کروانے والوں کا شکار بن کر دہشت گردی کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ تعلیم کی کمی اور جہالت انسان میں بے رحمی اور شقی القلبی پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے لوگ جلد مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے لوگوں میں براداشت اور صبر کی قوت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ ذرا سی بے انصافی پر ہتھیار اٹھالیتے ہیں اور اسی چیز کا فائدہ دہشت گردی کروانے والے اٹھاتے ہیں اور کم تعلیم یافتہ لوگوں سے باآسانی دہشت گردی کرواتے ہیں۔ وہ کم تعلیم یافتہ لوگوں کو جنت کا خواب دکھاتے ہیں کہ موت کے بعد وہ فوراً جنت میں جائیں گے اور حوریں ان کی بغل میں ہوں گی یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے جاہل لوگ جنت کا خواب دیکھتے ہوئے دہشت گردی کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور وہ بے گناہ لوگوں کو مارتے ہیں اور خود کو بھی جنت کا خواب دیکھتے دیکھتے موت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ وہ بالکل یہ نہیں سوچتے کے کسی بے گناہ کو مارنا کتنا بڑا جرم اور گناہ ہے جس کی انھیں سزا ملے گی۔ نہ ہی وہ دہشت گردی کرنے والوں سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آپ خود کیوں نہیں دہشت گردی کر کے اور خود کو موت کے حوالے کر کے جنت چلے جاتے؟ نام نہاد مذہبی رہنما اور علماء سُو اپنی تقاریر کے ذریعے کم تعلیم یافتہ لوگوں کو جنت کے بڑے بڑے خواب دکھاتے ہیں اور انھیں دہشت گردی کرنے ہر ابھارتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں کہتا ہے کہ دراصل یہی لوگ فسادی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے مذہبی رہنماؤں اور علما سُو سے لوگوں کو محفوظ رکھے کیونکہ امریکا اور روس کی جنگ جو افغانستان میں ہوئی اس میں یہی دہشت گرد ان مذہبی رہنماؤں اور علما سُو کی وجہ سے جہادی کہلائے لیکن جیسے ہی افغانستان میں روس کو شکست ہوئی یہی جہادی کچھ عرصہ بعد دہشت گرد کیسے بن گئے اس سوال کا جواب کبھی نہ امریکا نے دیا نہ دنیا میں کسی اور نے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے ان لوگوں کو جب روس کے خلاف یہ لوگ لڑ ہے تھے جہادی کہا لیکن جب اس کا مطلب پورا ہو گیا تو اس نے ان لوگوں کو جو پہلے اس کی نظر میں جہادی تھے دہشت گرد کہنا شروع کر دیا یعنی امریکا نے ان کی تعلیم کی کمی وجہ سے فائدہ اٹھایا اور انھیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا اور فائدہ صرف ان مذہبی رہنماؤں اور علما سُو کو ہوا جن پر ڈالروں کی بارش ہوئی۔

فلمیں

ترمیم

دنیا میں اس قسم کی فلمیں بنائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردی کو دنیا میں فروغ ملتا ہے ان فلموں کے مناظر اتنے خوفناک ہوتے ہیں کہ عام انسان پر خوف اور دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ قتل و غارت گری اور تباہی اور بربادی کے مناظر ان فلموں میں اتنے تسلسل سے دکھائے جاتے ہیں کہ انسانی جسم میں سنسنی دوڑتی رہتی ہے، جرائم، منشیات، دہشت گردی، جنگ و جدل، جہازوں، ہیلی کاپٹروں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تباہی، اسلحہ کے بے دریغ استعمال کو فلموں میں بہت ہی خوفناک اور دل ہلا دینے والے انداز میں پیش کیا جاتا جس کا اثر نہ صرف بڑی عمر کے لوگوں پر بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ چھوٹی عمر کے کچے ذہن فلموں کے ان موضوعات اور مناظر کا انتہائی منفی اثر لیتے ہیں اور خود بھی ان فلموں کے کرداروں کی طرح دنیا میں اسلحہ اٹھا کر دہشت گردی کرتے ہیں۔ بات موبائل اسلحہ کے زور چھیننے، پرس چھینے سے شروع ہوتی ہے اور بڑھتے بڑھتے موٹر سائیکل چوری کرنے، بینک ڈکیتی کرنے سے ہوتی ہوئی منشیات فروشی کی طرف بڑھتی ہے اور پھر بم دھماکا کرنے، بس اغوا کرنے، اغوا برائے تاوان، جہاز اغوا کرنے اور خود کش حملہ کرنے پر ختم ہوتی ہے۔ اب سوچیے کیا ان سب اعمال سے خوف و ہراس اور دہشت پیدا نہیں ہوتی؟ کیا یہ سب اعمال دہشت گردی کے اعمال نہیں ہیں؟ کیا یہ سب جرائم اور دہشت گردی کے اعمال دنیا میں بننے والی فلموں میں نظر نہیں آتے؟ کیا لوگ دہشت گردی کے ان اعمال کو ان فلموں سے نہیں سیکھتے؟ ہے کسی کے پاس اس سوال کا جواب۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ پیسہ کمانے کی ہوس انسانوں کو ایسی فلمیں بنانے پر مجبور کرتی ہے جس میں صرف نفرت اور دہشت گردی دکھائی جاتی ہے ان فلموں کو دیکھ کر انسان خود بھی ایک دوسرے کے مذہب سے نفرت، ایک دوسرے کی تہذیب سے نفرت اور ایک دوسرے کی روایات سے نفرت کرنا سیکھتا ہے۔ ان فلموں کو دیکھ کر انسان میں صبر اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی قوت ختم ہو جاتی ہے اور دنیا کا معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہوجاتا ہے اور انسان ان فلموں کو دیکھ کر دہشت گردی کرتا ہے۔ جو کچھ ہم دنیا کو فلموں کے ذریعے دکھا رہے ہیں وہی کچھ آج کے نوجوان ہمیں واپس کر رہے ہیں۔ وہ گینگسٹر بن رہے ہیں، منشیات کے عادی بن رہے ہیں، موبائل وہ چھینتے ہیں، کاریں وہ چوری کرتے ہیں۔ اغوا وہ کرتے ہیں، جہاز وہ اغوا کرتے ہیِں، بم دھماکے وہ کرتے ہیں، خود کش حملے وہ کرتے ہیں، ہر قسم کی دہشت گردی کا عمل وہ کرتے ہیں پھر شکوہ کس بات کا کہ دہشت گردی دنیا میں پھیل رہی ہے۔ بنانے رہیں نفرت اور دہشت گردی پر مبنیٰ فلمیں اور دھکیلتے رہیں اس دنیا کو دہشت گردی اور نفرت کے جہنم میں۔ کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے کیونکہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت تو ہم نے ختم ہی کر رکھی ہے۔

آبادی میں اضافہ

ترمیم

آبادی میں اضافہ بھی دنیا میں دہشت گردی کے پھیلنے کا سبب بن رہا ہے۔ گذشتہ ایک صدی میں دنیا کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی 7 اب 40 کروڑ 33 لاکھ افراد تک پہنچ چکی ہے۔ آبادی میں اس تیزی سے اضافہ کی وجہ سے جہاں دنیا میں بے شمار مسائل نے جنم لیا ہے ان میں ایک مسئلہ دنیا میں تیز رفتاری سے دہشت گردی پھیلنے کا بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے دنیا میں ترقی یافتہ ممالک نے تو وقت کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے اپنی آبادی کو کنٹرول میں رکھا لیکن ترقی پزیر اور خاص طور پر مسلمان ممالک میں آبادی کو کنٹرول نہ کیا جاس کا ان ممالک میں آبادی بہت تیزی سے بڑھی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان ممالک میں تعلیم کی کمی اور جہالت کی وجہ سے کوالٹی پر نہیں کوانٹٹی پر زور دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کی وہ ممالک جن میں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا وسائل کی کمی کا شکار ہو گئے اور وسائل کی کمی کی وجہ سے غربت اور بے روز گاری کا شکار ہو گئے اور ان ممالک میں کرپشن، لاقانونیت، جرائم اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی نے ڈیرے ڈال لیے۔ ظاہر ہے انسان کا پیٹ کھانے کو تو مانگتا ہے۔ انسان کتنا عرصہ بھوکا رہ کر اپنی زندگی بچا سکتا ہے۔ اسے اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے لے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے اور انسان کو سب سے آسان راستہ جرائم کا ہی نظر آتا ہے۔ جس کے پاس کچھ ذرا سی بھی طاقت اور دولت ہوتی ہے اس کی ہوس بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور وہ وسائل پر اپنی طاقت اور دولت کے زور پر قبضہ کرتا چلا جاتا ہے اور اس طرح امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے اور غریب غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اور جب ان ممالک میں جہاں آبادی میں بہت زیادہ تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ وہاں وسائل اور دولت کی تقسیم کا توازن شدت سے بگڑ جاتا ہے۔ طاقت ور لوگ ہر ادارے میں اپنے وفادار لوگ بٹھا دیتے ہیں اور یہ وفادار لوگ ان طاقت ور لوگوں کے لیے ہر قسم کا کام کرنے اور عام انسانوں پر ظلم ستم کے پہاڑ توڑنے پر تیار ہوتے ہیں۔ یہ طاقت ور لوگوں کے لیے قتل کرتے ہیں، اغوا کرتے ہیں اور خوف و دہشت کا وہ بازارگرم کرتے ہیں کہ ہر طرف ظلم اور زیادتی اور بے انصافی کا دور دورہ نظر آتا ہے۔ لیکن طاقت ور لوگ ہر لمحے اپنی جیت کا جشن مناتے نظر آتے ہیں۔ اس صورت حال میں شریف لوگ انصاف کے لیے عدالتوں کی طرف دیکھتے ہیں لیکن انصاف اس قدر مہنگا ہوتا ہے کہ انصاف کو حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے، وکیلوں کی بھاری فیسیں کہاں سے ادا کی جائیں مقدمات کے خرچے کیسے برداشت ہوں مقدمات جتنے زیادہ لمبے ہوتے ہیں ان کے اخراجات بھی اتنے ہی زیادہ بڑھتے چلے جاتے ہیں لیکن انصاف پھر بھی نہیں ملتا جیت ہمیشہ طاقت ور کی ہی ہوتی ہے ایسے عالم میں انسان یہ سوچتا ہے کہ وہ اس دنیا میں آیا ہی کیوں نہ آتا تو بہتر تھا کم از کم دنیا پر بوجھ تو نہ بنتا یا اس کا دل یہ سوچتا ہے کہ وہ خودکشی کرلے اور اس درد بھری دنیا سے نجات حاصل کرلے اور لوگ جو بالکل مایوس ہوجاتے ہیں وہ خودکشی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اب ہر کسی میں تو صبر اور برداشت کی قوت نہیں ہوتی ایسے عالم میں بہت سے لوگ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہتھیار اٹھاتے ہیں اور دہشت گردی کا راستہ اپناتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہوئے خودکش حملے کرتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی سے ہمارا بوجھ تو کم ہو گا اور کم از کم ہمیں تو اس دنیا سے نجات مل جائے گی اور خودکش حملے کے نتیجے میں طاقتور لوگوں سے کی طرف سے ملنے والی رقم سے کچھ عرصہ تو ہمارے وارثوں کا پیٹ بھر سکے گا انھیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ان کا مارا جانا لازمی ہے اور اگر بچ گئے تو پھانسی کا پھندا ان کا مقدر ہے لیکن اب اس کے لیے زندگی اور موت بے معنی ہو جاتی ہے وہ ہر صورت میں اس بے انصاف دنیا سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہر روز انصاف کا قتل ہوتا ہو وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کی زندگی بھی تو موت سے بدتر ہے وہ ہر روز کہاں سے اپنے بچوں کا پیٹ بھریں انھیں کہاں سے عید کے کپڑے لا کر دیں، جب ان کا بچہ کھیلنے کے لیے کسی کھلونے یا گیند کی فرمائش کرتا ہے یا ان کی بیٹی گڑیا کی فرمائش کرتی ہے تو ان کی جیب خالی ہوتی ہے اور ان کے سینے سے ایک کرب بھری آہ نکلتی ہے۔ یہ دنیا ان کے لیے بے مقصد اور بے معنی ہوجاتی ہے۔ کاش دنیا کے کرتا دھرتا سوچیں کہ آبادی اور وسائل میں ایک توازن پیدا ہو اور دولت کی تقسیم منصفانہ ہو تو دیشت گرد تو پیدا نہ ہوں اور دنیا میں دہشت گردی نہ ہو۔

دہشت گردی کی اقسام

ترمیم

دنیا میں دہشت گردی مختلف طریقوں سے ہوتی اور اس کو مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

  • انفرادی دہشت گردی
  • اجتماعی دہشت گردی
  • مذہبی دہشت گردی
  • نظریاتی دہشت گردی
  • ریاستی دہشت گردی
  • معاشی دہشت گردی

انفرادی دہشت گردی

ترمیم

انفرادی دہشت گردی انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔ اس سے لوگوں میں بہت ہی زیادہ خوف و ہراس اور دہشت پھیلتی ہے۔ انفرادی دہشت گردی میں ایک شخص ملوث ہوتا ہے اور وہ دہشت گردی کرتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی دہشت گرد تنظیم سے متاثر ہوتا ہے یا کسی مذہبی دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیم سے متاثر ہو کر خود ہی دہشت گردی کا فیصلہ کرتا ہے اور کسی طریقہ سے اسلحہ حاصل کرتا ہے اور کسی ہجوم میں گھس کر فائرنگ شروع کردیتا ہے اور بے گناہ افراد کو ہلاک کرتا ہے یا ایسا شخص کسی عبادت گاہ مسجد، امام بارگاہ، مندر اور گرجا گھر) میں گھس کر گولیوں کی بوچھاڑ کردیتا ہے جس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں یا ایسا شخص کسی ہوٹل یا بار (شراب خانے) یا کسی جوئے کے اڈے میں گھسنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اسلحہ کی مدد سے لوگوں کو ہلاک کرتا ہے یا ایسا شخص کسی تعلیمی ادارے، (یونیورسٹی، کالج، اسکول) میں داخل ہو کر فائرنگ کرتا ہے اور طلبہ کو ہلاک کرتا ہے یا ایسا شخص کسی مذہبی، سیاسی یا کسی اور شخصیت کو نشانہ بناتا ہے اور ہلاک کردیتا ہے۔ یا ایسا شخص کسی جہاز کو اغوا کرلیتا ہے اور اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری صورت میں دہشت گرد کسی دہشت گرد تنظیم کا فعال ممبر ہوتا ہے۔ اس کو دہشت گردی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اور دہشت گرد تنظیمیں اس دہشت گرد کو جنت کا خواب دکھا کر یا مال و دولت کا لالچ دے کر یا اس کے مذہبی جذبات کو ابھار کر اسے دہشت گردی کا مشن سونپتی ہیں اور اس سے دہشت گردی کرواتی ہیں یہ دہشت گردی خود کش حملہ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، جہاز اغوا کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، کسی عبادت گاہ (مسجد، امام بارگاہ، مندر، گرجا گھر) پر حملہ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، کسی تعلیمی ادارہ پر حملہ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، سیکورٹی اداروں اور سیکورٹی ایجنسیوں کے دفاتر یا ان کے اہلکاروں پر حملہ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، پولیس کے دفاتر یا پولیس کے اہلکاروں پر حملہ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، کسی مذہبی رہنما، سیاسی شخصیت یا کسی اہم شخصیت کی ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ انفرادی دہشت گردی بہت ہی زیادہ نقصان پہنچانے والی ہوتی اس دہشت گردی بعض اوقات ایک شخص کی وجہ سے بہت سی ہلاکتیں اور بہت بی بڑی تباہی ہوجاتی ہے۔ اس دہشت گردی میں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ حملہ آور کدھر سے نمودار ہوگا۔ حملہ آور اچانک ہی نمودار پوتا ہے خون کی ہولی کھیلتا ہے اور اکثر خود بھی خودکش حملہ کی صورت میں موت کا شکار ہوجاتا ہے یا سیکورٹی اداروں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے شاذ و ناظر ہی ایسا ہوتا ہے کہ حملہ آور گرفتار ہو جائے یا فرار ہونے میں کامیاب ہوجائے۔ یورپ اور امریکا میں اگر کو ئی سفید فام مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کرے تو اسے نفسیاتی مریض قرار دے کر بات کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور مغربی میڈیا اس کو کم سے کم دکھاتا اور بتاتا ہے۔ اور اگر کوئی اسلام کا لبادہ اوڑھے شخص دہشت گردی کرے تو میڈیا سمیت ہر طرف ایک طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ اور ہر زاویے سے اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کہ پوری دنیا میں قیامت آگئی ہو۔ حالانکہ دہشت گردی خواہ سفید فام مذہبی جنونی کرے یا اسلام کے پردے میں چھپا ہوا شخص کرے دہشت گرد تو دونوں ہی ہیں پھر مغرب اور امریکا کا یہ دوہرا معیار کیوں ہے؟ اپنا کوئی مذہبی جنونی دہشت گردی کرے تو اس کو نفسیاتی مریض قرار دے کر چھپائو اور بات کو ختم کر دو اور اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے کوئی دہشت گردی کرے تو اس کو خوب اچھالو اور اتنا پروپیگنڈہ کوو جیسے کہ قیامت آگئی ہو۔

، امام بارگاہ، مندر اور گرجا گھر) میں گھس کر گولیوں کی بوچھاڑ کردیتا ہے جس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں یا ایسا شخص کسی ہوٹل یا بار (شراب خانے) یا کسی جوئے کے اڈے میں گھسنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اسلحہ کی مدد سے لوگوں کو ہلاک کرتا ہے یا ایسا شخص کسی تعلیمی ادارے، (یونیورسٹی، کالج، اسکول) میں داخل ہو کر فائرنگ کرتا ہے اور طلبہ کو ہلاک کرتا ہے یا ایسا شخص کسی مذہبی، سیاسی یا کسی اور شخصیت کو نشانہ بناتا ہے اور ہلاک کردیتا ہے۔ یا ایسا شخص کسی جہاز کو اغوا کرلیتا ہے اور اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری صورت میں دہشت گرد کسی دہشت گرد تنظیم کا فعال ممبر ہوتا ہے۔ اس کو دہشت گردی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اور دہشت گرد تنظیمیں اس دہشت گرد کو جنت کا خواب دکھا کر یا مال و دولت کا لالچ دے کر یا اس کے مذہبی جذبات کو ابھار کر اسے دہشت گردی کا مشن سونپتی ہیں اور اس سے دہشت گردی کرواتی ہیں یہ دہشت گردی خود کش حملہ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، جہاز اغوا کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، کسی عبادت گاہ (مسجد، امام بارگاہ، مندر، گرجا گھر) پر حملہ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، کسی تعلیمی ادارہ پر حملہ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، سیکورٹی اداروں اور سیکورٹی ایجنسیوں کے دفاتر یا ان کے اہلکاروں پر حملہ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، پولیس کے دفاتر یا پولیس کے اہلکاروں پر حملہ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، کسی مذہبی رہنما، سیاسی شخصیت یا کسی اہم شخصیت کی ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ انفرادی دہشت گردی بہت ہی زیادہ نقصان پہنچانے والی ہوتی اس دہشت گردی بعض اوقات ایک شخص کی وجہ سے بہت سی ہلاکتیں اور بہت بی بڑی تباہی ہوجاتی ہے۔ اس دہشت گردی میں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ حملہ آور کدھر سے نمودار ہوگا۔ حملہ آور اچانک ہی نمودار پوتا ہے خون کی ہولی کھیلتا ہے اور اکثر خود بھی خودکش حملہ کی صورت میں موت کا شکار ہوجاتا ہے یا سیکورٹی اداروں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے شاذ و ناظر ہی ایسا ہوتا ہے کہ حملہ آور گرفتار ہو جائے یا فرار ہونے میں کامیاب ہوجائے۔ یورپ اور امریکا میں اگر کو ئی سفید فام مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کرے تو اسے نفسیاتی مریض قرار دے کر بات کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور مغربی میڈیا اس کو کم سے کم دکھاتا اور بتاتا ہے۔ اور اگر کوئی اسلام کا لبادہ اوڑھے شخص دہشت گردی کرے تو میڈیا سمیت ہر طرف ایک طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ اور ہر زاویے سے اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کہ پوری دنیا میں قیامت آگئی ہو۔ حالانکہ دہشت گردی خواہ سفید فام مذہبی جنونی کرے یا اسلام کے پردے میں چھپا ہوا شخص کرے دہشت گرد تو دونوں ہی ہیں پھر مغرب اور امریکا کا یہ دوہرا معیار کیوں ہے؟ اپنا کوئی مذہبی جنونی دہشت گردی کرے تو اس کو نفسیاتی مریض قرار دے کر چھپائو اور بات کو ختم کر دو اور اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے کوئی دہشت گردی کرے تو اس کو خوب اچھالو اور اتنا پروپیگنڈہ کوو جیسے کہ قیامت آگئی ہو۔

اجتماعی دہشت گردی

ترمیم

اجتماعی دہشت گردی میں کچھ لوگ یا کوئی گروہ مل کر دہشت گردی کرتے ہیں۔ اجتماعی دہشت گردی میں دہشت گرد تنظیمیں کچھ افراد کو دہشت گردی کا مشن سونپتی ہیں۔ ان افراد کو اس مشن کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اور دہشت گردی کے مشن کی تکمیل کے لیے ایک سربراہ نامزد کیا جاتا ہے جس کی سربراہی میں مشن کی تکمیل کی کوشش کی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے لیے ایک مکمل منصوبہ بندی کی جاتی۔ دہشت گردی کے مقام کا پہلے سے جائزہ لیا جاتا ہے اور مشن کا سربراہ تمام افراد کو ذمہ داری دیتا ہے اور پھر مقررہ وقت پر دہشت گردی کی جاتی ہے امریکا میں نو گیارہ کا واقعہ اس دہشت گردی کی بہت بڑی مثال ہے۔ اس دہشت گردی کے واقعات کچھ اس طرح ہیں، پہلے صبح 8 بج کر 46 منٹ پر سب سے پہلے 5 دہشت گردوں نے امریکی ہوابازی کا مسافر طیارہ فلائٹ -11 ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور -1 سے ٹکرا دیا۔ اور اس کے کچھ دیر بعد 9 بج کر 30 منٹ پر ایک دوسرا طیارہ یونائٹڈ ایئر لائن فلائٹ 175 کو بھی جنوبی ٹاور -2 سے ٹکرا دیا۔ اور اسی وقت 9 بج کر 37 منٹ پر پینٹاگان کی عمارت سے بھی پانچ ہائی جیکروں کے ہاتھوں اغوا شدہ طیارہ امریکی ایئر لائنز پرواز 77 گرایا گیا۔ مزید تھوڑی دیر بعد ایک اور طیارہ جو یونائٹڈ ایئر لائن فلائٹ 93 تھا اس کو 4 ہائی جیکروں نے وائٹ ہاؤس کی طرف لے جانے کی کوشش کی۔ مگر شانکس ولی، پنسلوانیا کے قریب لڑاکا طیاروں کے ذریعے اسے مار گرایا گیا۔ یہ وقت تھا 10 بج کر 30 منٹ۔ ان تمام حملوں میں جہازوں میں موجود تمام مسافر مارے گئے۔ ختم ہونے سے پہلے کئی مسافروں نے اپنے اپنے موبائل سیل کے ذریعے مختلف جگہوں پر فون کر کے اطلاعات دیں۔ ان تمام اطلاعات کو بعد میں منظم کیا گیا تا کہ اس حادثے میں ہونے والے اندرونی واقعات کو تفصیل سے جوڑا جا سکے۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا۔ دہشت گردی کے اس واقعہ کا ماسٹر مائنڈ خالد شیخ تھا جسے بعد میں پاکستان سے گرفتار کیا گیا۔ اجتماعی دہشت گردی کے اس واقعہ کے بعد پوری دنیا میں ایک بھونچال آگیا جس کے اثرات آج بھی پوری دنیا پر قائم ہیں۔

اجتماعی دہشت گردی کا دوسرا بڑا واقعہ آرمی پبلک اسکول پشاور کا ہے۔ 16 دسمبر 2014ء کو تحریک طالبان پاکستان کے 7 دہشت گرد ایف سی (فرنٹیئر کور) کے لباس میں ملبوس پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پچھلی طرف سے داخل ہو گئے اور ہال میں جا کر اندھا دھند فائرنگ کی اس کے بعد کمروں کا رخ کیا اور وہاں پر بچوں کو گولیاں ماریں، سربراہ ادارہ کو آگ لگائی۔ 9 اساتذہ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کل 144 شہید اور 113 سے زائد زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والے 132 بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیان میں تھیں۔ پاکستانی آرمی نے 950 بچوں و اساتذہ کو اسکول سے باحفاظت نکالا۔ ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ 6 مارے گئے۔ یہ پاکستانی تاریخ کا مہلک ترین دہشت گردانہ حملہ تھا، جس نے 2007 کراچی بم دھماکا کے واقعہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ مختلف خبر رساں اداروں اور مبصرین کے مطابق، عسکریت پسندوں کی یہ کارروائی 2004 میں روس میں ہونے والے بیسلان اسکول پر حملے سے ملتی جلتی ہے۔ اس واقع نے دہشت گردی کے متعلق پاکستانی عوام کی سوچ کو ہی بدل کر رکھ دیا اور پوری پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف اکھٹی ہو گئی اور پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف مکمل جنگ کا آغاز ہو گیا جو آج بھی پاکستان میں جاری ہے اور اس جنگ میں بے شمار پاکستان کے فوجی جوان سیکورٹی اداروں کے اہلکار اور پولیس کے اہلکار اور پاکستانی عوام اور خاص طور پر ہزارہ کے لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان نے بہت حد تک دہشت گردی پر قابو پا لیا ہے لیکن اب بھی دہشت گردی کے اِکا دُکا واقعات ہوتے ہیں جن پو قابو پانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔

اجتماعی ریاستی دہشت گردی کی مثال ماڈل ٹاؤن کا سانحہ ہے جہاں 17 جون 2014 کو پولیس نے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کے نام پر آپریشن کیا اور علامہ طاہر القادری کے کارکنوں کو رکاوٹیں ہٹانے کو کہا علامہ طاہرالقادری کے کارکنوں نے پولیس کو ہائی کورٹ کا حکم دکھایا لیکن پولیس نے علامہ طاہر القادری کے کارکنوں کے موقف کو تسلیم نہیں کیا اور پولیس کی بھاری نفری نے آپریشن کا آغاز کر دیا جس کے نتیجے میں پولیس اور علامہ ظاہر القادری کے کارکنوں کے درمیان میں تصادم ہوا پولیس نے علامہ طاہرالقادری کے کارکنوں پر سیدھی گولیاں چلائیں۔ اس فائرنگ سے دو خواتین سمیت چودہ افراد شہید اور سو کے قریب افراد زخمی ہو گئے۔ اس واقعہ کو تقریباً پانچ سال ہونے کو آئے ہیں اور سانحہ ماڈل ٹائون کے لواحقین انصاف کی تلاش میں آج بھی مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن انصاف اور عدل کا کہیں دور دور تک نہیں پتا اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس اجتماعی ریاستی دہشت گردی قتل عام کے پیچھے بہت ہی طاقت ور لوگوں کا ہاتھ ہے۔

اجتماعی ریاستی دہشت گردی کی ایک بہت بڑی مثال کشمیر ہے جہاں بھارت کی سات لاکھ فوج مل کر دہشت گردی کر رہی ہے اب تک ہزاروں کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔ ہزاروں ماؤں کے بچے ان سے چھین لیے گئے ہیں، ہزاروں عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں اور ہزاروں بچے یتیم ہو چکے ہیں، سینکڑوں کشمیری بھارتی فوجیوں کی پیلٹ گنز کی گولیوں کا نشانہ بن کر معذور ہو چکے ہیں اور معلوم نہیں کتنی کشمیری خواتین اپنی عزتیں لٹا چکی ہیں لیکن بھارت کی سات لاکھ فوج کی یہ اجتماعی ریاستی دہشت گردی کسی طرح بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور خود کو سپرپاور کہلانے والے ممالک نے بھارت کی اس اجتماعی ریاستی دہشت گردی پر چپ کا روزہ رکھ لیا ہے اور کشمیریوں پر ہونے والے اس ظلم ستم اور اجتماعی دہشت گردی پر زبانوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں اور بھارت کے اس ظلم ستم پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا ہے اور کشمیری بھارت کی اس اجتماعی دہشت گردی اور ظلم و ستم کا عرصہ دراز سے مقابلہ کر رہے ہیں۔

اجتماعی دہشت گردی کی ایک اور صورت یہ ہوتی ہے کہ کچھ لوگ یا ایک بڑا ہجوم یا گروہ اپنی اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر کسی فرد یا کچھ لوگوں کو جو اقلیت میں ہوتے ہیں اور کمزور ہوتے ہیں پر حملہ کرتا انھیں قتل کرتا ہے، ان کے مال کو لوٹ لیتا ہے، ان کے مکانات، ان کی جائداد اور ان کے کھیتوں کو آگ لگا دیتا ہے اور اس طرح لوٹ مار، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور ہر طرف فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔ اس قسم کی دہشت گردی پوری دنیا میں ہوتی ہے لیکن بھارت میں اس قسم کی دہشت گردی بہت ہی عام ہے۔اور بھارت میں کوئی اقلیت خواہ وہ سکھ ہوں، مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا ان کی اپنی ہندو برادری کے شودر ہوں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں۔اس قسم کی دہشت گردی عموما کسی بھی واقعہ یا سانحہ کے نتیجہ میں ہونے والے فسادات کی وجہ سے ہوتی ہے دنیا میں جہاں کہیں بھی فسادات اور دنگے ہوتے ہیں وہاں اس قسم کی دہشت گردی ہوتی ہے۔ مسلمانوں میں اکثر شیعہ طبقہ اس قسم کی دہشت گردی کا شکار بنتا ہے۔

بھارت میں 1984 میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دو سکھ محافظوں کے قتل کے بعد فسادات پھوٹ پڑے اور ہر طرف ہجوم اور گروہ سیاسی اور پولیس کی پشت پناہی کے ساتھ سکھوں کو تلاش کر رہے تھے، انھیں قتل کر رہے تھے، انھیں لوٹ رہے تھے اور ان کی جائداد اور املاک کو آگ لگا رہے تھے ہر طرف آہوں، سسکیوں اور چیخوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، ننھے بچوں کے رونے اور بلکنے کی آوازوں سے دل دہل رہے تھے لیکن ہر طرف قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا بازار گرم تھا ان فسادات میں تین ہزار کے قریب بے گناہ افراد دہشت گردی سے قتل ہو گئے لیکن ایک طرف انسان مرتے رہے اور دوسری طرف انسانیت سوتی رہی یہ بے حسی اور نفرت کی انتہا تھی۔

بھاگل پور میں ہندو مسلم فسادات ہوئے، لال کرشن اڈوانی کی رام جنم بھومی تحریک اور بابری مسجد کے انہدام کے بعد فسادات ہوئے جن میں ہزاروں مسلمان مارے گئے، ممبئی میں 1992 اور 1993 کے فسادات میں ایک ہزار مسلمانوں کا قتل ہوا اور 2002 میں گجرات میں فسادات میں ایک ہزار مسلمان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور آج کے بھارت کے وزیر اعظم مودی ان فسادات میں ملوث تھے اس وقت کی گجرات کی مودی سرکار نے ہندوئوں کی بھرپور مدد کی اور اس طرح تفتیش کرائی کے قاتل قانون سے بچ نکلے اور ان کو سزا نہ ہوئی۔

جھنگ میں 22 فروری 1990 کو مولانا حق نواز جھنگوی کا قتل ہوا جس کے بعد جھنگ میں فسادات پھوٹ پڑے اور سپاہ صحابہ کے کارکنوں نے جھنگ میں شیعہ برادری کا قتل عام کیا ان کے گھروں کو لوٹ لیا گیا، ان کی املاک کو آگ لگائی گئی۔ اور شیعہ ہزارہ برادری سب سے زیادہ اس کا نشانہ بنی۔

مذہبی دہشت گردی

ترمیم

دنیا میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ اگر دنیا کے مذاہب کا مطالعہ کیا جائے تو کوئی مذہب بھی دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا دنیا کے تمام مذاہب نے امن، محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دی ہے۔ اس لیے دہشت گردی کو کسی مذہب سے منسوب کرنا بالکل غلط بات ہے۔ کیونکہ اگر کوئی عیسائی مسلمانوں کی مسجد میں گھس کر 50 مسلمانوں کو شہید کر دے (جیسا کہ نیوزی لینڈ میں کرائس چرچ کی مسجد میں ہوا) تو کیا اس کو عیسائی دہشت گردی کہا جائے گا؟ نہیں بالکل بھی نہیں اسی طرح جرمن کے ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کیا تو کیا یہ عیسائی دہشت گردی ہو گی؟ بالکل نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی یہودی یا یہودی ریاست مسلمانوں یا عیسائیوں کو قتل کرے جیسا کہ اسرائیل فلسطین میں بے گناہ مسلمانوں کو جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں قتل کررہا ہے تو کیا یہ یہودی دہشت گردی ہو گی؟ نہیں بالکل بھی نہیں یہ یہودی دہشت گردی نہیں ہوگی۔ اسی طرح ہندو مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں کو اور دیگر اقلیتوں کو قتل کریں جیساکہ بھارت کی سات لاکھ فوج کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے یا گائو ماتا کے نام پر مسلمانوں کو قتل کر دیا جاتا ہے یا سکھوں کا قتل عام ہوا، غرض بھارت میں کوئی اقلیت محفوظ نہیں ہے) تو کیا یہ ہندو دہشت گردی کہلائے گی؟ نہیں بالکل بھی نہیں اسی طرح جب بدھ مت کے ماننے والے برما میں مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں تو کیا یہ بدھشت دہشت گردی کہلائے گی؟ نہیں بالکل نہیں، اسی طرح جب کوئی مسلمان عیسائیوں، یہودیوں یا ہندوئوں کو قتل کرتا ہے تو پھر اسے اسلامی دہشت گردی کیوں کہا جاتا ہے؟ اور مغربی میڈیا اور امریکی میڈیا کیوں زور و شور سے اسلامی دہشت گردی کا پروپیگنڈہ کرتا ہےِ؟ اسی طرح جب عیسائی، یہودی، یندو اور بدھ مت کے ماننے والے دہشت گردی سے ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں تو اسے بھی عیسائی، یہودی، ہندو اور بدھشت دہشت گردی کہنا چاہیے، لیکن ایسا نہیں کہا جاتا۔

اسلام سے خوفزدہ مغربی میڈیا کے اس دوہرے معیار پر صرف ماتم کرنے کا ہی جی کرتا ہے۔ دنیا میں جو لوگ دہشت گردی کرتے ہیں ان کا تعلق کسی بھی مذہب، کسی بھی قوم، کسی بھی معاشرے سے ہو سکتا ہے اور ہر مذہب، قوم اور معاشرے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کا عمل کسی بھی مذہب سے جوڑ دینا انتہائی غلط ہے۔ ہر مذہب کے برے لوگ خود کو مذہب کی آڑ یا مذہب کے پردے میں چھپا کر دہشت گردی کرتے ہیں اور مذہب خوامخواہ میں بدنام ہوتا ہے۔ مذہب جس کا کوئی قصور نہیں ہوتا اس کو دہشت گردی کے لیے انتہائی غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے پردے میں دہشت گردی کی جاتی ہے۔ اسلام میں برے لوگوں نے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے نے اسلام کے نام پر اتنا عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوئوں کو نہیں مارا جتنا کہ پر امن مسلمانوں کو مارا ہے تو انصاف سے بتائیں ان مسلمانوں کا جو اسلام کے پردے میں چھپے ہوئے ہیں کا پرامن اور بے گناہ مسلمانوں کو مارنا اسلامی دہشت گردی کہلائے گا؟ وہ دہشت گرد جنہیں خود مغرب اور امریکا نے پیدا کیا کیسے اسلامی دہشت گرد ہو سکتے ہیں؟ کیا داعش امریکا کی پیداوار نہیں ہےِ؟ داعش کو ہتھیار کہاں سے ملے؟ اور انھیں کس نے مضبوط کیا؟ یہ بھی دنیا کے لیے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ یہاں ہنری کلنٹن کا بیان بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ داعش کو ہم نے سپورٹ کیا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنا سر تو کٹا دیا لیکن ظلم، جبر اور دہشت گردی کے سامنے اپنے سر کو کبھی نہیں جھکایا اور میدان کربلا میں وہ اعلیٰ اور مثالی کردار پیش کیا اور پوری دنیا کو بتایا کی اصل اسلام یہ ہے کہ ظلم، جبر اور دہشت گردی کے خلاف ڈٹ جاؤ کربلا کا ایک ایک شہید اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے یہ آواز بلند کر رہا ہے کہ اسلام ایک پر امن اور محبت کرنے والا دین ہے۔

نظریاتی دہشت گردی

ترمیم

جب کسی انسان کی سوچ اور نظریہ میں تشدد، انتہا پسندی، جبر یا کسی ہتھیار کے زور پر اپنی بات اور اپنے نظریہ کو منوانے کا عنصر پیدا ہوجائے تو اس کو نظریاتی دہشت گردی کہا جائے گا۔ انسان جب سے اس دنیا میں آیا ہے دنیا میں بے شمار نظریات نے جنم لیا ہے۔ مذہبی نظریات میں اسلام، عیسائیت، یہودیت، ہندو، سکھ، بدھ مت، جین مت اور دیگر کئی مذہبی نظریات شامل اسی طرح بت پرست، شرک، ستارا پرستی، دہریت، آگ کی پوجا، دیوتائوں کی پوجا، گائے کی پوجا، سورج کی پوجا، سانپ کی پوجا، بندر کی پوجا، اللہ کی واحدانیت سے انکار، اللہ کے وجود سے انکار اور دیگر کئی نظریات شامل ہیں۔ اسی طرح دنیاوی نظریات جن میں آمریت، جمہوریت، کیمونسٹ، شوشلسٹ سیکولر، لبرل ازم اور دیگر کئی نظریات شامل ہیں ان سب نظریات میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ جب تک لوگ اپنے اپنے نظریات کو دلیل کے ساتھ پر امن طریقے سے تبلیغ کے ذریعے اور ایک دوسرے کے اختلاف کو برداشت کرتے ہوئے پھیلاتے ہیں تو مسائل جنم نہیں لیتے لیکن جب لوگ اپنے نظریات کو پھیلانے کے لیے اور اپنی بات کو منوانے کے لیے جبر، تشدد، ظلم اور اسلحہ کو راستہ استعمال کرنے کا راستہ اپناتے ہیں تو دہشت گردی کا راستہ کھل جاتا ہے اور نظریاتی دہشت گردی شروع ہوجاتی ہے۔

قرآن مجید میں سورۃ بقرہ کی آیت 256 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ:

ترجمہ: دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔[13]

اسی طرح سورۃ کافرون میں ارشاد خدا وندی ہے۔

بِسْمِ اللهِ الرَحْمنِ الرَحیمْ

خدا کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

قُلْ یَاأَیُّھَاالْکَافِرُونَ ﴿1﴾ لاَ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿2﴾ وَلاَ أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿3﴾

(اے رسول)کہہ دو کافرو سے میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرتے ہوجس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ میں اس کی عبادت

وَلاَأَنَا عَابِدٌ مَاعَبَدْتُمْ ﴿4﴾ وَلاَأَنْتُمْ عَابِدُونَ مَاأَعْبُدُ ﴿5﴾ لَکُمْ دِینُکُمْ وَلِیَ دِینِ ﴿6﴾

کرنے والا ہوں جس کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں تمھارے لیے تمھارادین اور میرے لیے میرا دین ہے[14]

قرآن مجید کی سورۃ بقرہ کی آیت نمبر256 سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جبر سے کسی کو بھی کسی دین میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں امتحان اور آزمائش کے لیے بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو راستے بتائے ہیں ایک ہدایت کا راستہ جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے اور اللہ کے قریب کرتا ہے اور دوسرا راستہ گمراہی کا راستہ ہے جو انسان کو شیطان کی طرف لے جاتا ہے اور شیطان کے قریب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان راستوں کی نشان دہی انبیاء علیہ السلام، امام علیہ السلام، ولیوں اور اپنے نیک بندوں کے ذریعے کی ہے۔ اور فیصلہ انسان کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ کون سا راستہ اپناتا ہے ہدایت کا راستہ یا گمراہی کا راستہ یہی انسان کی آزمائش اور امتحان ہے اگر انسان اس امتحاں میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسے انعام میں جنت ملے گی اور اگر انسان اس امتحان میں ناکام ہوجاتا ہے تو اسے سزا میں جہنم ملے گی۔ اب یہ انسان کے اوپر ہے کہ وہ سچائی، ایمانداری، صبر، برداشت، محبت، امن، بھائی چارے کا راستہ اپنائے اور اس کے صلہ میں جنت پائے یا تشدد، جبر، ظلم، بربریت، ناانصافی، عدم برداشت، قتل و غارت گری، فساد، شر اور دہشت گردی کا راستہ اپنائے اور جہنم کی سزا کا مستحق ٹہرے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ الکافرون میں ارشاد فرماتا ہے (اے رسول) کہہ دو کافروں سے میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو یعنی اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کافروں سے کہہ دو میں تمھارے ان بتوں کو نہیں پوجتا ہوں جن کو تم پوجتے ہو اور نہ ہی تم اس کی عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں یعنی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہو لیکن تم اس اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور نہ ہی میں اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی تم عبادت کرتے ہو یعنی نہ ہی میں تہمارے کہنے سے جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو عبادت کرنے والا ہوں۔ اور نہ ہی تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں یعنی تم میرے کہنے سے اس اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نہیں ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین۔ یعنی تمھیں اختیار ہے کہ تم جو مرضی دین اور راستہ اختیار کرو اور مجھے یہ اختیار ہے کہ میں جو مرضی دین راستہ اختیار کروں۔

سورۃ الکافرون میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کافروں کے دین کی وضاحت کی گئی کہ کافروں کا کیا دین تھا اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کس دین کو اپنائے ہوئے تھے اور اپنی مرضی اور اختیار سے اپنے دین پر چل رہے تھے یعنی سورۃ الکافرون یہ پکار پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے یعنی لوگوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ جو مرضی چاہے دین اختیار کریں انھیں مکمل آزادی ہے لیکن دوسری طرف کافر رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وصلم کو لالچ دے ہے تھے کہ انھیں جائداد کی ضرورت ہے تو وہ انھیں جائداد فراہم کر دیں گے یا مال کی ضرورت ہے تو انھیں مال فراہم کر دیں گے یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی خوبصورت عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو وہ (کافر) ان کی شادی کروا دیں گے پس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا دین چھوڑ دیں اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو انجام کے ذمہ دار ہوں گے یعنی کافر لالچ، دھونس دھمکی اور جبر سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا دین چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے اب انصاف سے سوچیں کہ یہ کھلی نظریاتی دہشت گردی نہیں تو اور کیا تھا بالکل یہ ایک کھلی ہوئی دہشت گردی تھی جو کافروں کی طرف سے کی جارہی تھی لیکن اللہ کے رسول ان سب باتوں کو انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کر رہے تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو طاقت بخشی تو یہی کافر مقابلے کی سکت نہ پا کر اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوئے اللہ کے رسول نے انھیں جبر سے اسلام قبول کرنے اور ان کا نظریہ اور دین بدلنے پر بالکل بھی مجبور نہیں کیا۔ یہی کافر اور منافق انتقام کی آگ میں جلتے رہے اور وقت کا انتظار کرتے رہے کہ اسلام کی جڑوں کو اسلام کے اندر رہ کر کیسے کمزور کیا جائے اور اسلام کی پر امن، محبت اور بھائی چارے والی تعلیمات کو کیسے تبدیل کیا جائے اور دوبارہ جبر و تشدد اور دہشت کیسے مسلط کی جائے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافروں، مشرکین، یہودیوں اور عیسائیوں سے جو جنگیں لڑنا پڑیں وہ ان پر مسلط کی گئیں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام جنگیں اپنے دفاع میں لڑیں اور اسلام کو دنیا میں تبلیغ سے پھیلایا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے بظاہر رخصت ہوتے ہی اسلام کی پر امن تعلیمات میں آہستہ آہستہ تبدیلی کا عمل شروع ہوا اور جنگیں اپنے دفاع میں لڑنے کی بجائے ملکوں کو فتح کرنے کی طرف مڑ گئیں اور تبلیغ کا عمل سست روی کا شکار ہو گیا اور وہ کافر جنھوں نے فتح مکہ کے وقت مجبوراْ اسلام قبول کیا تھا۔ (کیونکہ کافروں کے پاس اسلام قبول کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا۔) اب اسلام میں موجود منافیقن نے موقع غنیمت جان کر اسلام کی پر امن، محبت اور بھائی چارے والی تعلیمات پر کاری ضرب لگانا شروع کر دی اور اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنا شروع کر دیا۔ حضرت علی اور حضرت عثمان کو اسلام کے لبادے میں چھپے ہوئے ان لوگوں اور منافقین کے خلاف سخت ترین جدوجہد کرنا پڑی اور یہاں تک کہ حضرت علی اور حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا اور پھر وہ بدترین وقت آ گیا کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو میدان کربلا میں شہید کر دیا حیا۔

ریاستی دہشت گردی

ترمیم

کسی ریاست کا اپنے زیر قبضہ علاقہ میں پر امن لوگوں پر ظلم، تشدد، کرنا ان پر لاٹھی چارج کرنا، مارنا پیٹنا اور انھیں ہلاک کردینا ریاستی دہشت گردی کہلاتا ہے۔ پوری دنیا میں عوام کو پرامن احتجاج کا حق حاصل ہوتا ہے اور لوگ دھرنا کی صورت میں، جلسے، جلوسوں کی صورت میں احتجاج کرتے ہے۔ جب تک یہ احتجاج پرامن رہے ریاست کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ان پر امن لوگوں پر جبر و تشدد کرے، ان پر لاٹھی چارج کرے، ان پر آنسو گیس کے شیل پھینکے اور ان پر گولیاں چلائے لیکن اگر یہ احتجاج تشدد، جلائو گھیرائو، پتھرائو، سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچانے اور سرکاری اہلکاروں کے ساتھ مار پیٹ کی صورت اختیار کر لے تو پھر ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور اس صورت میں ریاست طاقت کا استعمال کر سکتی ہے۔

ریاستی دہشت گردی کئی طرح سے ہو سکتی ہے حکمران جماعت یا حکومت اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اپنے مخالفین اور اپوزیشن کو دبانے کے لیے انھیں ناجائز طور پر گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیتی ہے ان پر تشدد کرتی ہے اور سیاسی رہنماؤں کو قتل کروا دیتی ہے ان کے دھرنوں، جلسے، جلوسوں، ریلیوں کو طاقت کے بل پر روکتی ہے اور ان کو جلسے، جلوسوں اور ریلیوں میں شرکت کرنے سے روکتی ہے اور رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے تو یہ ریاستی دہشت گردی ہوتی ہے۔ ماڈل ٹائون لاہور کا سانحہ اس دہشت گردی کی بہت بڑی مثال ہے جہاں دو خواتین سمیت چودہ افراد کو دن دہاڑے پنجاب حکومت کے بڑوں کے اشارے پر پولیس نے ہلاک کر دیا اس سانحہ میں 100 کے قریب افراد ذخمی بھی ہوئے لیکن ماڈل ٹائوں سانحہ کے لواحقین کو اب تک انصاف نہ مل سکا اور قاتل اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔

سرکاری ملازمین، کسان یا عوام الناس کا کوئی اور طبقہ اپنے جائز مطالبات کے لیے پر امن احتجاج کرتا ہے اور لوگ اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے دھرنا دیتے ہیں یا ریلی نکالتے ہیں تو اس صورت حال میں حکومت عدم برداشت کا مظاہرہ کرتی ہے اور پر امن لوگوں کے احتجاج کو ختم کروانے کے لیے پر امن لوگوں پر لاٹھی چارج کرتی ہے، واٹر کینن کا استعمال کرتی ہے، ربڑ کی گولیاں استعمال کرتی ہے، آنسو گیس کے شیل پھینکتی ہے اور پر امن لوگوں پر پر گولیاں چلاتی ہے تو یہ ریاستی دہشت گردی کہلاتی ہے۔

دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جنھوں آزادی حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ جد و جہد کی لیکن ان ممالک کی عوام کو اس جد و جہد کے نتیجہ میں ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا اور دنیا میں بے شمار لوگ آزادی کی جدوجہد میں ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن کر ہلاک ہو گئے

برطانیہ کی ریاستی دہشت گردی

ترمیم

امریکا نے برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لیے 7 جون 1776 کو رچرڈ ہنری نے براعظمی کانگریس میں کہا کہ ” متحدہ نو آبادیات کو آزاد اور خود مختار رہنے کا حق حاصل ہے“ 2 جولائی کو یہ قرارداد منظور کرلی گئی اور 4 جولائی اعلانِ خود مختاری (Declaration of Independence) پر دستخط کر دیے گئے۔ 4 جولائی 1776 کو جن 56 افراد نے اعلان آزادی پر دستخط کیے ان حریت پسند وں کو نو آبادیات پر پر قابض برطانیہ کی طرف سے بد ترین ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ دستخط کرنے والے پانچ افراد کو برطانوی قابض افواج نے گرفتار کر کے غداری کے الزام میں اتنے ظالمانہ تشدد نشانہ بنایا کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، بارہ انقلابیوں کے گھر تباہ و برباد کر کے نذر آتش کردیے گئے، ایک انقلابی کے دو بیٹے گرفتار کر کے غائب کردیے گئے، ان 56 انقلابیوں میں سے 9 نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور انقلاب کی اذیت ناک تکالیف اور زخموں سے ہلاک ہو گئے، ورجینیا کے ایک خوش حال اور مال دار تاجر کے بحری جہاز کو برطانوی بحریہ قبضہ کر کے لے گئی اس تاجر نے اپنا گھر اور جائداد بیچ کر اپنے قرضے ادا کیے اور انتہائی مفلسی کی موت قبول کی، ایک اور انقلابی تھامس میک کین (Mckean) کا برطانوی فوج نے اس قدر پیچھا کیا کہ اسے بار بار اپنی سکونت تبدیل کرنی پڑی اور اپنے خاندان کو ادھر ادھر منتقل کرنا پڑا۔ وہ کانگریس میں بغیر تنخواہ کام کرتا رہا۔ اس کی فیملی مسلسل روپوشی کے عالم میں رہی۔ اس کا سارا اسباب خانہ لوٹ لیا گیا۔ اور اس کو بقیہ عمر ناداری کے عالم میں گزارنی پڑی، برطانوی فوج کے سپاہیوں اور لٹیرے رضاکاروں نے ولیم ایلری (Welliam Ellery) لائمن ہال (Lyman Hall) جارج کلائمر (George Clymer) جارج والٹن (George Walton) بٹن گوئینٹ (Button Gwinnet)تھامس ہیورڈ جونیئر (Thomas Heyward Jr.) ایڈورڈ رٹلیج (Edward Rutledge) اور آرتھر مڈلٹن (Arthur Middleton) کی تمام جائیدادیں لوٹ کر تباہ و برباد کر دیں، یارک ٹائون کے معرکہ میں تھامس نیلسن (Thomas Nelson) نے نوٹ کیا کہ برطانوی جنرل کارنوالس نے نیلسن کے گھر پر قبضہ کر کے اسے اپنا ہیڈکوارٹر بنا لیا ہے۔ اس نے خاموشی سے انقلاب کے جنرل واشنگٹن کو مشورہ دیا کہ اس کا گھر گولہ باری سے اڑا دیا جائے۔ گھر تباہ ہو گیا اور نیلسن قلاش ہو کر مرا، فرانسیس لیوس (Fracis Lewis) کا گھر تباہ کر دیا گیا اور اس کی بیوی کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ جہاں وہ چند ماہ بعد خالق حقیقی سے جا ملی۔ جان ہارٹ (John Hart) کو اس کی بیوی کے بستر مرگ سے جدا کر دیا گیا۔ اس کے 13 بچے اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ گئے، جان ہارٹ کے کھیت اور اس کی آٹا پیسنے کی مل تباہ و برباد کر دی گئی۔ ایک سال تک وہ جنگلوں اور غاروں میں چھپا پھرتا رہا اور جب وہ گھر واپس آیا تو اس کی بیوی مرچکی تھی اور بچے نہ معلوم کہاں چلے گئے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ خود بھی نہایت دل شکستگی کے عالم میں فوت ہو گیا، رابرٹ مورس (Robert Moriss) اور فلپ لیونگ سٹون (Philip Levingstone) کو بھی اسی نوع کے حالات سے گذرنا پڑا، 22 ستمبر 1776ء کو برطانوی افواج نے تحریک آزادی کے ایک رہنما ناتھن ھیل (Nathan Hale)کو جاسوسی کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مرنے سے پہلے اس کی زبان سے یہ تاریخی الفاظ ادا ہوئے:”مجھے افسوس ہے کہ وطن کو دینے کے لیے میرے پاس صرف ایک زندگی ہے۔“ اب امریکا کو خود سوچنا چاہئیے کہ آزادی کے لیے لڑنے والے لوگ دہشت گرد نہیں ہوتے بلکہ انھیں ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکا آزادی کے لیے لڑنے والوں کو دہشت گرد کہہ کر سنگین غلطی کر رہا ہے اور کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی تحریکوں کو دبانہ چاہتا ہے۔اسی طرح برطانیہ نے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی نام کی تجارتی کمپنی بنائی جس نے سارے ہندوستان پر آہستہ آہستہ قبضہ کر لیا اور یہاں ریاستی دہشت گردی کا بازار گرم گردیا ہندوستان میں برطانوی تسلط سے آزادی کے لیے آزادی کی تحریک چلی اور برطانیہ ہندوستانی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتا رہا ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا بے شمار افراد کو آزادی کی تحریک میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا برطانیہ آزادی کی اس تحریک کو ریاستی دہشت گردی سے دبانے کی کوشش کرتا رہا لیکن آخر اسے آزادی کی تحریک کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اسے ہندوستان کو پاکستان اور بھارت کی صورت میں آزاد کرنا پڑا۔اب یہاں سب سے عجیب صورت حال یہ ہے کہ وہی بھارت جس نے برطانیہ سے آزادی کی تحریک کے ذریعے آزادی حاصل کی اور برطانیہ کی ریاستی دہشت گردی کا سامنا کیا کشمیر میں چلنے والی آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے اپنی سات لاکھ فوج کے ذریعے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور امریکا کی آشیرباد سے کشمیر میں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد کہتا ہے سوچیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں تو او کیا ہے؟

اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برطانیہ نے کئی ممالک پر قبضہ کر لیا تھا اور ان ممالک میں برطانیہ کے تسلط سے آزادی کے لیے تحاریک چلائی گئیں برطانیہ نے ان تحاریک کو ختم کرنے کے لیے ہر قسم کی ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا ان ممالک کے عوام کو جیلوں میں ڈالا گیا بہت سے افراد ان آزادی کی تحریکوں میں برطانیہ کی ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے ہلاک کر دیے گئے اور لیکن آخرکار ان ممالک کے عوام کی جدوجہد رنگ لائی اور یہ ممالک برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہو گئے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی اور آزادی کی تحریکوں میں فرق کیا جائے۔آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کہنا بالکل غلط نظریہ اور تصور ہے۔

بھارت کی ریاستی دہشت گردی

ترمیم

اس وقت بھارت وہ ملک ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ رکھنے کے باوجو سب سے زیادہ ریاستی دہشت گردی کرنے والا ملک ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے اور یہ فوج کشمیر میں ریاستی دہشت گردی سے کشمیریوں کو شہید کررہی ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی کشمیری بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ وہاں بھارتی فوج کشمیری خواتین کی عزت لوٹ لیتی ہے، کشمیریوں کو پیلٹ گنوں کی گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں کشمیری معذور ہو چکے ہیں اب تک ہراروں کشمیری بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ کشمیری اپنی آزادی کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد موجود ہے کہ کشمیری رائے شماری کے ذریعے اپنی رائے دیں کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں لیکن بھارت اقوام متحدہ کی قرارداد کو نظر انداز کر کے کشمیر میں ریاستی دہشت گردی سے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے اور کشمیری عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو دہشت گردی قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ آزادی کی تحریک اور دہشت گردی میں بہت بڑا فرق ہے۔

اسی طرح بھارتی پنجاب میں سکھوں کی آزادی کی تحریک خالصتان چل رہی ہے لیکن بھارت سکھوں کی آزادی کی تحریک کو ریاستی دہشت گردی سے دبانے کی کوشش کر رہا ہے گولڈن ٹیمپل کا واقعہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی بہت بڑی مثال ہے جس میں بے شمار سکھ ہلاک کر دیے گئے۔ بھارت کے کئی اور صوبوں ناگالینڈ، آسام اور بہار وغیرہ میں آزادی کی تحریکیں اٹھ رہی ہیں لیکن بھارت ریاستی دہشت گردی سے ان علاقوں کے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے لیکن دنیا بھارت کی اس ریاستی دہشت گردی پر خاموش ہے اور بھارت کو ریاستی دہشت گردی کرنے کی کھلی چھوٹ ہے۔

بھارت کی مودی سرکار انتہا پسند ہندوئوں کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور یہ انتہا پسند بھارت میں موجود اقلیتوں مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور شودروں کو جنہیں بھارت میں کم ذات ہندو سمجھا جاتا ہے کو بھارتی حکومت کی آشیر باد اور ہشت پناہی سے دہشت گردی کا نشانہ بناتے رکھتے ہیں اس طرح اگر دیکھا جائے تو بھارت میں کوئی اقلیت بھی محفوظ نہیں ہے اور بھارتی حکومت کے انتہا پسند ہندو غنڈوں کی دہشت گردی کا شکار ہوتی رہتی ہے اور بھارتی حکومت ان انتہا پسند غنڈوں کو عدالتوں سے بچانے میں مدد کرتی ہے اور ان انتہا پسندوں کو اپنا سرمایہ سمجھتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ بھارتی حکومت اپنے انتہا پسند غنڈوں کے ہاتھوں ریاستی دہشت گردی کروا رہی ہے اور دنیا خاموشی سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نظارہ کر رہی ہے۔

اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی

ترمیم

لبنان اور مصر کے درمیان میں واقع علاقہ دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ہے اس کا نام فلسطین ہے۔ یہ علاقہ خلافت عثمانیہ تک رہا قائم رہا خلافت عثمانیہ کے بعد فلسطین پر انگریزوں اور فرانسیسیوں نے قبضہ کر لیا 1948 میں ایک بہت بڑی سازش کے تحت فلسطین پر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی اور دنیا بھر سے یہودی یہاں لا کر بسائے گئے اور یہاں یہودیوں کی بستیاں تعمیر کی گئیں 1967 میں اسرائیل نے امریکی مدد اور امریکی اسلحہ کے زور پر بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ فلسطین کی آزادی کی تحریک بہت پرانی ہے لیکن اس آزادی کی تحریک میں شدت اسرائیل کے بیت المقدس پر قبضہ کے بعد آئی جوں جوں فلسطین میں آزادی کی تحریک زور پکڑتی گئی توں توں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی میں بھی شدت آتی گئی۔ اسرائیل فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا ریا فلسطینی عوام اپنی اور بیت المدس کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے ہزاروں فلسطینی آازدی کی اس جدوجہد میں اسرائیلی بمباری اور اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے۔ اسرائیل نے عورتوں اور بچوں پر بھی رحم نہ کیا اور انھیں بھی شہید کر دیا۔ ہزاووں فلسطینی اسرائیلی فوج کی بمباری اور اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن کر زخمی ہو گئے یا معذور ہو گئے۔ آزادی کی اس تحریک کے روح رواں یاسر عرافات تھے۔ امریکا، یورپ اور اسرائیل یاسر عرافات کو دہشت گرد کہتے تھے لیکن پھر دنیا نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ انہی یاسر عرافات کو جنہیں یہ دنیا دہشت گرد کہتی تھی اقوام متحدہ نے انھیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کی دعوت دی واہ ری دنیا تیرے رنگ ہی نرالے ہیں جتنا ہی سوچتے جائو اتنا ہی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے جائو اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ دنیا کے لوگ جس یاسر عرافات کو دہشت گرد کہتے نہیں تھکتے تھے۔ اسی یاسر عرافات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کی دعوت دے ڈالی اب لوگ یہ سوچیں کہ کون سی بات صحیح ہے یاسر عرفات کو دہشت گرد کہنا یا یاسر عرافات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کی دعوت دینا لوگ سوچتے رہیں اور اس گھتی کو سلجھاتے رہیں اور دنیا کی منافقت پر ہنستے رہیں۔

آج بھی فلسطین اور بیت المقدس کی مکمل آزادی کی جدوجہد جاری ہے اور اسرائیل کی وحشیانہ ریاستی دہشت گردی بھی جاری ہے اب بھی فلسطین میں اسرائیلی بستیاں تعمیر کی جارہی ہیں اور دنیا سے یہودیوں کو یہاں لا کر بسایا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کا جب جی چاہتا ہے فلسطینی عوام کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔ ان پر بمباری کر کے انھیں شہید کر دیتے ہیں عورتیں اور بچے بھی اسرائیلی فوج کی وحشت اور بربریت اور ریاستی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ فلسطینی ہسپتالوں اور اسکولوں تک کو بمباری کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن افسوس کہ اقوام متحدہ اور تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ کہلانے والی اس دنیا کے لب اسرائیل کی اس وحشت و بربریت اور ریاستی دہشت گردی پر سلے ہوئے ہیں ان امن کے دعوے داروں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور کوئی اسرائیل کی اس ریاستی دہشت گردی کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا کیونکہ امریکا اور یورپ اسرائیل کے پشت پناہ ہیں اور یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون لاگو ہے یا طاقت کے زور پر ہی کمزوروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ کو توڑنا ہے اس دنیا کے قانون کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی نظر آتی ہے۔

امریکا کی ریاستی دہشت گردی

ترمیم

دنیا میں ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال امریکا نے قائم کی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں چھ اگست 1945 کو امریکا نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا اور پل بھر میں جاپان کا یہ شہر راکھ کا ڈھیر بن گیا اس ایٹم بم کے حملے کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق کم از کم ایک لاکھ چالیس ہزار بے گناہ افراد ہلاک ہو گئے۔ امریکا نے اپنی اس بد ترین ریاستی دہشت گردی پر صبر نہیں کیا اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کے ٹھیک تین روز بعد جاپان کے ایک اور شہر ناگا ساکی پر ایٹم بم گرایا اور امریکا کے اس ریاستی دہشت گردانہ حملے میں کم از کم 74 ہزار بے گناہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جاپان کے ان دو شہروں پر ایٹمی حملے کے نتیجے میں دو لاکھ سے زائد بے گناہ افراد ہلاک ہو گئے اور لاکھوں افراد معذور اور زخمی ہو گئے اس ایٹمی حملے کے اثرات آج بھی جاپان کے ان شہروں پر قائم ہیں اور آج بھی جاپان کے ان شہروں میں معذور بچے پیدا ہوتے۔ یہ ایک ریاست کی دوسری ریاست پر ریاستی دہشت گردی کی ایسی مثال ہے جو دنیا قیامت تک نہیں بھول سکتی جب بھی دنیا میں کسی بھی جگہ امریکا کی اس ریاستی دہشت گردی کا ذکر ہوتا ہے آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں امریکا نے دوسری جنگ عظیم تو جیت لی لیکن اپنے ماتھے پر ریاستی دہشت گردی کا ایسا داغ چھوڑ گیا جو کبھی بھی نہیں مٹ سکتا۔

ویت نام کی جنگ جسے ہند چینی کی جنگ بھی کہا جاتا ہے شمالی ویت نام اور جنوبی ویت نام کے درمیان میں ایک عسکری تنازع تھا جو 1959 سے 30 اپریل 1975 تک جاری ریا امریکا اپنے اتحادیوں جنوبی کوریا، آسٹریلیا، تھائی لینڈ اور نیوزی لینڈ کے ہمراہ اس جنگ میں کود پڑا جبکہ شمالی ویت نام کو قومی محاذ برائے آزادی جنوبی ویت نام(المعروف ویت کانگ) سویت اتحاد اور عوامی جمہوریہ چین کی حمایت حاصل تھی۔ امریکا نے 1965 میں اپنی تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ کے قریب افواج (اس پرائی جنگ میں) ویت نام میں اتار دی اور یہیں سے امریکی ریاستی دہشت گردی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو امریکی افواج کے ویت نام چھوڑنے تک جاری رہا امریکی افواج نے 1973 میں اپنی شکست دیکھ کر ویت نام چھوڑا۔

امریکا کی اس جنگ میں ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے ویت نام اور ویت کانگ کے ایک اندازے کے مطابق ہلاکتوں اور گمشدگیوں کی تعداد گیارہ لاکھ 76 ہزار تھی [15] جبکہ ان کے چھ لاکھ سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ویت نام اور ویت کانگ کے اتحادیوں عوامی جمہوریہ چین کے 1446 فوجی ہلاک اور اور چار ہزار دو سو فوجی زخمی ہوئے، سویت یونین کے بھی سولہ فوجی ہلاک ہوئے[16] اس طرح شمالی ویت نام اور اس کے کل اتحادیوں کا جانی نقصان 11 لاکھ 77 ہزار 446 رہا جبکہ زخمیوں کی کل تعداد چھ لاکھ چار ہزار رہی۔ یہ سارا جانی نقصان امریکا کی ویت نام کی جنگ میں مداخلت اور ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے ہوا تھا۔ جبکہ دوسری جانب جنوبی ویت نام کا جانی نقصان 2 لاکھ 20 ہزار 357 تھا اور زخمیوں کی تعداد گیارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد تھی۔ امریکا کے 58 ہزار ایک سو 59، [17] جنوبی کوریا کے 4 ہزار 960 فوجی، لائوس کے تیس ہزار، آسٹریلیا کے 520، نیوزی لینڈ کے 37 اور تھائی لینڈ کے 351 فوجی مارے گئے۔ اس طرح جنوبی ویت نام اور اس کے اتحادیوں کا کل جانی نقصان 3 لاکھ 15 ہزار 831 رہا اور ایک اندازے کے مطابق زخمیوں کی کل تعداد 14 لاکھ 90 ہزار تھی۔اس جنگ میں دونوں طرف کا اتنا بڑا جانی نقصان صرف امریکا کی بے جا مداخلت اور ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے ہوا، شمالی ویت نام اور جنوبی ویت نام تباہ برباد علحیدہ ہو گئے امریکا اپنی ساری ریاستی دہشت گردی کے باوجود یہ جنگ ہار گیا اس کا سارا غرور و تکبر زمیں بوس ہو گیا۔

20 مارچ 2003 کو امریکا اور برطانوی افواج اور ان کی اتحادی فوجیں عراق میں ایٹمی ہتھیاروں اور کیمیکل ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر کویت کے راستے عراق میں داخل ہوتی ہیں اور عراق پر پوری طاقت سے حملہ کردیتی ہیں۔ دو اپریل کو امریکا اور اس کی اتحادی افواج کی بے پناہ طاقت کے سامنے صدر صدام حسین کی حکومت کمزور پڑ جاتی ہے اور گھٹنے ٹیک دیتی ہے اس طرح امریکا اور اس کی اتحادی فوجیں عراق کے دل بغداد میں داخل ہوجاتی ہیں اور اس پر قبضہ کر لیتی ہیں اسی وقت بغداد میں صدر صدام حسین کے ایک بڑے مجسمے کو گرا دیا جاتا ہے۔ اور عراق میں لوٹ مار، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو کئی روز تک جاری رہتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی عراق میں امریکی ریاستی دہشت گردی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو کئی سالوں پر محیط ہوتا ہے۔

امریکا کی اس ریاستی دہشت گردی کے نتیجہ میں کئی لاکھ بے گناہ عراقی شہری ہلاک ہو گئے اور کئی لاکھ بے گھر ہو گئے۔ امریکا کی اس ریاستی دہشت گردی کے نتیجہ میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا بھی ایک سلسلہ شووع ہو گیا جس میں بے شمار بے گناہ لوگ مارے گئے اور انسانیت شرمندہ ہوتی رہی لیکن امریکا کو اپنی اس ریاستی دہشت گردی پر کوئی شرمندگی محسوس نہ ہوئی اور وہ کیمیکل اور ایٹمی ہتھیار جس کا ڈھنڈورا امریکا نے پوری دنیا میں پیٹ رکھا تھا وہ عراق میں آج تک بھی کہیں بھی نہ ملے۔ دراصل امریکا کا اصل مقصد تباہ شدہ عراق کی دوباہ تعمیر کے لیے امریکی کمپنیوں کو ٹھیکے دلوانہ تھا اور عراق کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا تھا امریکا کی عراق پر ریاستی دہشت گردی کے بعد پوری دنیا میں تیل کی قیمتوں کو پر لگ گئے اور ان میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا جس نے دنیا کے بہت سے ممالک کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا اور پوری دنیا میں مہنگائی کا وہ طوفان اٹھا جس نے دنیا کے غریب طبقہ کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا اور کمزور معیشت پر کھڑے ممالک میں غربت میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔اس طرح امریکا کی عراق پر ریاستی دہشت گردی کے بہت ہی ہولناک اثرات مرتب ہوئے۔

نو، گیارہ یعنی 11 ستمبر 2001 میں امریکا میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان پر چڑھائی کر دی ان حملوں کا اصل مقصد نو گیارہ کو امریکا میں ہونے والے حملوں کا بدلہ لینا اور اسامہ بن لادن کی گرفتاری تھا۔ امریکا نے طالبان کو تو اس جنگ میں شکست دے دی لیکن اسامہ بن لادن کو جو روس افغانستان کی جنگ میں امریکا کا لاڈلا تھا کو امریکا گرفتار نہ کرسکا۔(جو بعد میں امریکا ہی کے ہاتھوں مارا گیا) امریکا کے افغانستان پر قبضہ کے بعد ایک امریکی ریاستی دہشت گردی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب تک افغانستان میں ہونے والی امریکی دہشت گرد کی وجہ سے 2014 تک ایک اندازے کے مطابق 45 ہزار سے زائد افغان شہری، 72 ہزار سے زائد افغان طالبان اور 2438 امریکی ہلاک ہو چکے ہیں اور ہلاکتوں کا یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ پورا افغانستان تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ امریکا کی دہشت گردی کی وجہ سے افغان عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے

۔

دیگر ممالک اور ریاستی دہشت گردی

ترمیم

دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں ریاستی دہشت گردی نہ ہوئی ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ ریاستی دہشت گردی کہیں بہت زیادہ مقدار میں ہوتی ہے اور کہیں کم مقدار میں لیکن ہوتی ضرور ہے بے شمار ملکوں کے عوام دوسرے قابض ممالک کے تسلط سے نجات کے لیے جدوجہد کرتے ہیں تو انھیں قابض ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ غلام بنائے گئے ممالک کے عوام کو آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملتی اس کے لیے انھیں سخت جدوجہد کرنا پڑتی ہے جس کے لیے انھیں ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا میں اب تک اس قسم کی ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے کروڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ جو ممالک اور ان کے عوام اپنی آزادی حاصل کر نے کے لیے ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے ہیں وہ آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے ہی ملک کے عوام کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں۔ غرض جب سے یہ اس دنیا میں انسان آباد ہوا ہے شاید ہی کوئی علاقہ یا ملک ایسا ہو جسے ریاستی دہشت گردی کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو اور بے گناہ عوام کو ریاستی دہشت گردی کے سے ہلاک نہ کیا گیا ہو یا جیلوں میں نہ ڈالا گیا ہو یا ان کے گھروں کو تباہ و برباد نی کیا گیا ہو۔ دنیا میں ریاستی دہشت گردی کی ہولناکیاں اتنی خوفناک ہیں کہ ان کا سوچ کر بھی رونگٹے کانپتے ہیں۔

معاشی دہشت گردی

ترمیم

حکمران طبقہ، بیوروکریٹ یا کسی اعلیٰٰ سرکاری عہدے پر فائز لوگ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کرپشن کے ذریعے یا کک بیکس (کمیشن) حاصل کر کے ناجائز اور غیر قانونی طور پر مال کماتے ہیں اور اور پھر اس مال کو منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ممالک میں، حوالہ ہنڈی کے ذریعے اور لانچوں کے ذریعے یا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بیروں ممالک میں منتقل کرتے ہیں اور اس ناجائز مال کے ذریعے آفشور کمپنیاں بناتے ہیں اور بڑی بڑی جائدادیں خریدتے ہیں یا پھر اس مال کو جعلی اکائونٹس کے ذریعے اور ٹی ٹی کے ذرریعے واپس اپنے ملک میں منتقل کر کے سفید دھن بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ملک کو معاشی طور پر سخت نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا یہ عمل معاشی دہشت گردی کہلاتا ہے۔ معاشی دہشت گردی کی وجہ سے ملک کی معیشت قرضوں میں ڈوب جاتی ہے اور ملک دیوالیہ ہوجاتا ہے یا دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ کچھ لوگ امیر سے امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے چلے جاتی ہے۔ عوام میں احساسِِ محرومی بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس احساس محرومی کی وجہ سے لوگ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتے ہیں اور نفسانفسی کا دور شروع ہوجاتا ہے، ہڑتالیں دھرنے اور احتجاج کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس سے ملکی معیشت کا بالکل بیٹھ جاتی ہے اور سونے پر سہاگہ یہ ہوتا ہے کہ ناجائز طو پر کمایا ہوا یہ پیسہ دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یا الیکشن جیتنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ حکمرانی حاصل کر کے دوبارہ ناجائز طور پر مال بنایا جاسکے۔ سرکاری عہدوں پر اپنے وفاداروں اور اپنی پسند کے لوگوں کو تعینات کیا جاتا ہے تاکہ ان کے ساتھ مل کر ملکی دولت کو خوب لوٹا جاسکے اور یہ سرکاری عہدے دار بھی ناجائز مال کمانے میں خوب ہاتھ رنگتے ہیں۔ بعض اوقات سیاسی پارٹیاں اپنی باری مقرر کرلیتی ہیں جس کی حکمرانی کی باری ہوتی ہے وہ اپنی پارٹی کے لوگوں کو خوب مال بنانے کی اجازت دیتی ہے۔ اور اپوزیشن عوام کو مطمعن کرنے کے لیے کرپشن کے خلاف صرف بیان بازی کرتی ہے اور کوئی عملی احتجاج نہیں کیا جاتا ہے نہ ہی آواز اٹھائی جاتی ہے اور پھر دوسری سیاسی پارٹی کی حکمرانی کی باری آجاتی ہے اور دوسری پارٹی کے لوگوں کو ناجائز طور پر مال بنانے کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے اور بیان بازی کا وہی ڈراما رچایا جاتا ہے اس طرح معاشی دہشت گردی کا یہ سائیکل چلتا رہتا ہے اور اگر کوئی اس معاشی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائے اور معاشی دہشت گردی کرنے والے کرپٹ لوگوں کے خلاف عملی اقدامات اٹھائے تو ملک کی جمہوریت خطرے میں پڑنے کا راگ الاپا جاتا ہے اور یہ سارے کرپٹ اور ناجائز مال بنانے والے لوگ اکھٹے ہوجاتے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عوام کا ایک طبقہ جس نے اس کرپٹ عناصر سے معاشی فائدہ اٹھایا ہوتا ہے اور ان کے ساتھ مل کر کرپشن میں ہاتھ رنگے ہوتے ہیں یا وہ ان کی فیکٹریوں اور ان کی زمینیوں پر کام کرتے ہیں ان کرپٹ عناصر بھرپور ساتھ دیتے ہیں یا وہ عناصر جو خود تو بظاہر کرپشن نہیں کرتے لیکن ان سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوتے ہیں جن کے لیڈر معاشی دہشت گردی اور کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں اپنے معاشی دہشت گرد اور کرپشن میں ملوث لیڈروں کا ہر ٹی وی چینل پر بھرپور دفاع کر رہے ہوتے ہیں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ سیاسی رہنما خود تو کرپشن اور معاشی دہشت گردی نہیں کرتے لیکن نہیں کرتے لیکن اپنے کرپٹ لیڈروں اور معاشی دہشت گردوں کو دفاع کس بنیاد پر کرتے اس کی وجہ بالکل بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ حالانکہ اصول کے کے تحت تو ان عناصر کو کرپشن اور معاشی دہشت گردوں کے خلاف اپنی سیاسی پارٹیوں میں آواز بلند کرنی چاہئیے یا اگر یہ اپنے آپ کو ایماندار کہنے والے لوگ ایسا نہیں کر سکتے تو معاشی دہشت گردوں اور کرپشن میں ملوث لوگوں کا ساتھ تو چھوڑ سکتے ہیں یا ایماندار لوگوں کے ساتھ مل کر معاشی دہشت گردی اور کرپشن کا مقابلہ تو کر سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ان وجوہات کی وجہ سے معاشی دہشت گردوں کو بہت بڑا سہارا ملتا ہے اسی وجہ سے ان معاشی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے اور ملک کی معیشت دیوالیہ ہو جاتی ہے یا دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جاتی ہے اور عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں اور معاشی دہشت گرد آزادانہ معاشی دہشت گردی کرتے رہتے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

ان معاشی دہشت گردوں اور کرپٹ عناصر کو ایک اور بڑا سہارا ملتا ہے کہ وہ وکیل جو یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے معاشی دہشت گردی کی ہے، منی لانڈرنگ کی ہے، کرپشن کی ہے۔ کمیشن حاصل کی ہے۔ آفشور کمپنیاں بنا کر اور عرب ممالک کے اقامے حاصل کر کے بیرون ممالک میں جائدادیں خریدی ہیں یہ وکیل بڑی بڑی فیسوں کے عوض ان معاشی دہشت گردوں کے کیس عدالتوں میں لڑتے ہیں اور اپنی چرب زبانی سے ان معاشی دہشت گردوں کو عدالتوں سے صاف بچا کر لے آتے ہیں اور یہ معاشی دہشت گرد وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عدالتوں سے باہر آتے ہیں جو کے معاشی دہشت گردی کا شکار ممالک کا بہت بڑا المیہ ہے۔

معاشی دہشت گردی ایسا ناسور ہے جو کینسر کی طرح پوری دنیا میں پھیل ریا ہے جس کا کوئی علاج ممکن نظر نہیں آرہا ہے اور معاشی دہشت گردی کی وجہ سے دنیا کے بے شمار ممالک کی معیشت ڈوب چکی ہے۔ انسانی ہوس اور لالچ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وطن سے محبت بے معنی ہو گئی ہے اور لوگ پیسہ بنانے کے چکر میں تمام اخلاقی حدوں کو پار کر چکے ہیں طاقتور طبقہ بالکل بھی نہیں سوچتا کہ اہک دن انھیں اللہ کے آگے جواب دنیا پڑے گا یہ طاقتور طبقہ صرف یہ سوچتا ہے کہ ان کا آج اچھا ہے کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے ریاستی ادارے اور عدالتیں اس معاشی دہشت گرد طبقے کے سامنے بالکل بے بس نظر آتی ہیں سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ یہ معاشی دہشت گرد طبقہ اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے اور آفشور کمپنیوں میں اپنی حرام کی ناجائز دولت کو چھپائے رکھتا ہے اور ٹیکس ادا نہیں کرتا جس سے بہت سے ممالک میں ایک متوازی اور غیر قانونی معیشت قائم ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے ان ممالک کی معیشت ڈوب جاتی ہے اور ان ممالک کو اپنی خوداری کو بیچ کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرضوں کی بھیک مانگنا پڑتی ہے اور جس کا خمیازہ ان ممالک کے عوام کو مہنگائی اور ٹیکسوں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ کاش یہ معاشی دہشت گرد سوچیں کہ انھیں ایک دن اس دنیا سے واپس جانا ہے اور اپنے رب کو جواب دینا ہے اور جو دولت ان کے پاس ہے وہ ان کی نہیں رہے گی ان کو اس دنیا سے خالی ہاتھ ہی جانا ہو گا اور ان کی اولاد اس حرام کی کمائی کے حصے بخرے کرلے گی صرف ان کے ساتھ ان کے اعمال جائیں گے جس کا انھیں ہر صورت میں حساب دینا ہو گا اور اس وقت ان کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہ ہو گا اور ان کی تمام عبادتیں صفر ہو جائیں گی کیونکہ یہ لوگ اللہ کو بے قوف بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جو یہ کبھی نہیں بنا سکتے کیونکہ اللہ ان کے بارے میں سب جانتا ہے وہ انھیں ان کے غلط اعمال کی سزا ضرور دے گا۔

دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک

ترمیم

موجودہ دور میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہونے والے ممالک میں عراق، افغانستان، نائیجیریا، شام، پاکستان، یمن، صومالیہ، بھارت، ترکی اور لیبیا ہیں[18][19]

عراق

ترمیم

عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گذشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گذشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے تین ہزار کے قریب واقعات پیش آئے جن میں تقریباً 10 ہزار افراد ہلاک جبکہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔

افغانستان

ترمیم

افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گذشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔

دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔

جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔

پاکستان

ترمیم

پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گذشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور7.8 رہا۔

یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔

صومالیہ

ترمیم

دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔

بھارت

ترمیم

جنوب ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔

ترکی

ترمیم

دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔

لیبیا

ترمیم

لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گذشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔

دنیا میں دہشت گردی کے واقعات

ترمیم

جب سے اس دنیا میں انسانی وجود نے قدم رکھا ہے دہشت گردی کے لاکھوں واقعات رونما ہو چکے ہیں اور ان واقعات میں کروڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں دنیا میں دہشت گردی کا سب سے پہلا واقعہ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل کا ہابیل کو ناحق قتل کرنا تھا یعنی جس دن قابیل نے ہابیل کو قتل کیا اس دن یہ ایک انسان کا قتل نہیں تھا بلکہ پوری انسانیت کا قتل تھا کیونکہ ہابیل کے قتل کے بعد انسانوں کے قتل عام اور دہشت گردی کا ایک ایسا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا جو کسی طرح بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور معلوم نہیں شاید قیامت تک جاری رہے گا۔

اسلامی تاریخ کا دہشت گردی ک اایک اہم ترین واقعہ حضرت عثمان کی خارجیوں کے ہاتھوں شہادت اور دوسرا واقعہ یزید کا حضرت امام حسین کو ان کے بہتر ساتھیوں سمیت میدان کربلا میں تین دن کا بھوکااور پیاسا شہید کیا۔

دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہو گا جہان دہشت گردی کا واقعہ نہ ہوا ہو دنیا کے اہم ممالک میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں اور انسان کے لیے باعث عبرت ہیں انسانوں کو ان واقعات کو پڑھ کر سبق حاصل کرنا چاہیے اور عبرت پکڑنی چاہیے۔

امریکا میں دہشت گردی کے واقعات

ترمیم

امریکا میں دہشت گردی کے بے شمار واقعات ہوئے ہیں جو درج ذیل ہیں،

  • 14 اپریل 1865 کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی صدر ابراہم لنکن کو جان ولکس بوتھ نے گولی مار دی امریکی صدر ابراہم لنکن دہشت گردی کے اس واقعہ میں 15 اپریل 1865 کو انتقال کر گئے دہشت گردی کے اس واقعہ میں تین افراد زخمی بھی ہوئے۔
  • 2 جولائی 1881 میں امریکی صدر جیمز گار فیلڈ کو (James Garfield) کو چارلس جے گیوٹیو (Charles J. Guiteau ) نے واشنگٹن ڈی سی میں گولی مار دی امریکی صدر دہشت گردی کے اس واقعہ میں 19 ستمبر 1881 کو انتقال کرگئے۔
  • 4 مئی شگاگو، الیونیس (Chicago, Illinois)میں ( Haymarket Square) پر مزدور ریلی کے دوران میں بم پھینکا گیا اس دہشت گردانہ حملہ میں 7 پولیس والوں سمیت کل بارہ افراد ہلاک ہوئے اور 60 کے قریب افراد زخمی ہوئے [20]
  • 6 ستمبر 1901 کو بفیلو، نیویارک (Buffalo, New York) میں صدر ولیم میکلی کو ( Leon Czolgosz)نے گولی مار دی 14 ستمبر کو اس دہشت گردانہ حملہ میں صدر میکلی انتقال کر گئے اس سانحہ میں ایک شخص زخمی بھی ہوا۔
  • یکم اکتوبر 1910 کو لاس اینجلز، کیلی فورنیا (Los Angeles, California) میں ٹائمز بلڈنگ میں لیبر کارکنوں کی طرف سے بم دھماکے کیے گئے جس کے نتیجے میں عمارت جزوی طور پر تباہ ہو گئی اس دہشت گردی میں 21 افراد ہلاک ہوئے اور 20 افراد زخمی ہوئے۔
  • 22 جولائی 1916 کو سان فرانسسکو، کیلیفورنیا (San Francisco, California) میں پریڈ کی تیاری کے دن ایک سوٹ کیس میں موجود بم پھٹ گیا جس کے نتیجہ میں 10 افراد ہلاک ہوئے اور 44 زخمی ہوئے۔
  • 31 جنوری 1919 کو واشنگٹن ڈی سی (Washington, DC) میں دہشت گردی کے حملہ میں تین چینی باشندے ہلاک کر دیے گئے۔
  • 16 ستمبر 1920 کو نیویارک سٹی، نیویارک (New York City, New York) میں مورگن بنک کے قریب (lower Manhattan) میں گھوڑے سے تیار کی گئی ویگن (wagon) میں شدید بم دھماکا ہوا۔ دہشت گردی کے اس خوفناک حملہ میں 38 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ تین سو افراد زخمی ہوئے۔
  • 22 جون 1922 کو ہیرن، ایلینوس (Herrin, Illinois) میں مزدوروں کے احتجاج پر فائرنگ ہوئی جس میں 19 افراد ہلاک ہو گئے۔
  • 18 مئی 1927 کو باتھ، مشیگن (Bath, Michigan) میں ایک اسکول میں خود کش بم دھماکے کے نتیجہ میں 46 افراد ہلاک اور 58 زخمی ہو گئے۔
  • 15 فروری 1933 کو میامی، فلوریڈا (Miami, Florida) میں شدت پسند جوزف زنگارا (Joseph Zangara) نے منتخب امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ ( Franklin Roosevelt ) کو ہلاک کرنے کی کوشش کی اس سانحہ میں ایک شخص ہلاک اور چار افراد زخمی ہو گئے۔
  • 10 اکتوبر 1933 کو چیسٹیرون، انڈیانا (Chesterton, Indiana) میں ایک بم دھماکے سے ایک بوئنگ نمبر 247 تباہ ہو گیا جس کے نتیجہ میں سات افراد ہلاک ہوئے۔
  • 8 جولائی 1945 کو سیلینا، یوٹاہ (Salina, Utah) میں ایک گارڈ کی طرف سے جرمن قیدیوں پر فائرنگ کے نتیجہ میں 9 افراد ہلاک اور 20 افراد زخمی ہو گئے۔
  • 5 ستمبر 1949 کو کیمڈن، نیو جرسی (Camden, New Jersey) میں فائرنگ سے 13 افراد ہلاک کر دیے گئے۔
  • یکم نومبر 1950 کو واشنگٹن ڈی سی (Washington, DC) میں امریکی صدر ہیری ٹرومین ( Harry Truman, ) کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی اس سانحہ میں دو افراد سمیت ایک دہشت گرد ہلاک ہو گیا۔
  • یکم نومبر 1955 کو لانگمونٹ، کولوراڈو (Longmont, Colorado) میں یونائیٹڈ ایئر لائن ڈی سی 8 کو بم دھماکے سے تباہ کر دیا گیا جس کے نتیجہ میں 44 افراد ہلاک ہو گئے۔
  • 15 ستمبر 1959 کو ہیوسٹن، ٹیکساس (Houston, Texas) میں ایک ایلیمنٹری اسکول میں خودکش بم حملہ ہوا جس میں چھ افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوئے۔
  • 22 مئی 1962 کو یونین ویلی، مسوری (Unionville, Missouri) میں کنٹینٹل پرواز میں بم دھماکے کے نتیجہ میں 44 افراد ہلاک ہوئے۔
  • 15 ستمبر 1963 کو برمنگہم، البامہ (Birmingham, Alabama) چرچ کے اقدامات کے لیے ہونے والی سنڈے اسکول کی تقریب میں 4 لڑکیاں جن کی عمریں 11 سے 14 سال تھیں بم دھماکا سے ہلاک کردی گئیں جبکہ 23 افراد زخمی ہوئے۔
  • 22 نومبر 1963 کو ڈلاس، ٹیکساس (Dallas, Texas) میں لی ہاروی اوسوالڈ (Lee Harvey Oswald) نے امریکی صدر جان کینڈی ( John Kennedy)کو گولی مار دی جس میں امریکی صدر جاں بحق ہو گئے۔ اس سانحہ میں دو افراد زخمی بھی ہوئے۔
  • یکم مئی 1964 کو سان رامون، کیلیفورنیا (San Ramon, California) میں فرینک گونزلیز (Frank Gonzalez) پیسفک ایئر لائنز کے پائلٹ کو گولی مار دی جس کے نتیجہ میں 44 افراد ہلاک ہو گئے۔
  • 22 جون 1964 کو فلاڈیلفیا، مسیسپی (Philadelphia, Mississippi) میں تین شہری حقوق کے کارکنوں کو اغوا کر لیا گیا جن کی لاشیں 4 اگست کو ملیں سات افراد کو قتل کے الزام میں سزا ہوئی۔
  • 11 سے 16 اگست تک لاس اینجلس، کیلی فورنیا (Los Angeles, California) میں سیاہ فسادات ہوئے جس میں 34 افراد ہلاک اور 1یک ہزار افراد ذخمی ہوئے۔ ان فسادات میں 20 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔
  • 15 مارچ 1966 کو لاس اینجلس، کیلی فورنیا (Los Angeles, California) میں سیاہ فسادات کے نتیجہ میں دو افراد ہلاک 25 زخمی ہوئے۔
  • یکم اگست 1966 کو آسٹن، ٹیکساس (Austin, Texas) میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ٹاور سے سنائپر شوٹنگ (sniper shooting) کے نتیجہ میں 19 افراد ہلاک اور 31 افراد ذخمی ہو گئے۔
  • سات جون 1967 کو لاس ویگاس، نیواڈا (Las Vegas, Nevada) میں ایک موٹل میں خودکش حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں چھ افراد ہلاک بارہ افراد زخمی ہوئے۔
  • بارہ سے سترہ جولائی 1967 تک نیویارک، نیو جرسی (Newark, New Jersey) میں سیاہ فسادات ہوئے جس کے نتیجہ میں 26 افراد ہلاک 1500 زخمی ہو گئے۔
  • 23 سے 30 جولائی 1967 تک سیاہ فسادات ہوئے جس کے نتیجہ میں 43 افراد ہلاک اور 2000 زخمی ہوئے۔
  • 4 اپریل 19668 کو میمفس، ٹینیسی (Memphis, Tennessee) میں جیمز آرل رے نے سیاہ فام لیڈر مارٹن لوتھر کنگ کو گولی ماردی۔
  • 5 جون 1968 کو لاس اینجلس، کیلی فورنیا (Los Angeles, California) میں رابرٹ کینیڈی کو (Jordanian Sinhan Bishara Sirhan) نے گولی ماردی رابرٹ کینیڈی 6 جون کو انتقال کر گئے۔
  • یکم جون 1969 کو کیلی فورنیا ( California) میں بلیک پینتھر پارٹی کے ہیڈ کواٹر پر فائرنگ سے 13 پولیس والے زخمی ہو گئے۔
  • 7 اگست 1969 کو نیویارک سٹی، نیویارک (New York City, New York) میں میرین مڈل لینڈ بلڈنگ میں بمباری کے نتیجہ میں 20 افراد زخمی ہوئے۔
  • 22 جنوری 1972 کو سینٹ لوئس، مسوری (Saint Louis, Missouri) میں دو پولیس والوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
  • 27 جنوری 1972 کو نیویارک سٹی، نیویارک (New York City, New York) میں دو پولیس آفیسرز کو ہلاک کر دیا گیا۔
  • 7 جنوری 1973 کو نیو اورلینز، لوزیانا (New Orleans, Louisiana) میں بلیک پینتھر کے سابق رکن کی فائرنگ سے 9 افراد ہلاک اور 13 زخمی ہو گئے۔
  • 17 مئی 1974 کو لاس اینجلس، کیلی فورنیا (Los Angeles, California) پولیس مقابلہ میں چھ مشتبہ دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔
  • 6 اگست 1974 کو لاس اینجلس، کیلی فورنیا (Los Angeles, California) میں ائیر پورٹ پر لاکر میں بم دھماکا ہوا اس سانحہ میں تین افراد ہلاک اور 35 زخمی ہوئے۔
  • 24 جنوری 1975 کو نیویارک سٹی، نیویارک (New York City, New York) میں بم دھماکا ہوا جس کے نتیجہ میں 4 افراد ہلاک 63 زخمی ہوئے۔
  • 29 دسمبر 1975 کو نیویارک سٹی، نیویارک (New York City, New York) میں لا گارڈیا ائیر پورٹ (La Guardia Airport) پر ایک لاکر میں بم دھماکا ہوا جس میں 11 افراد ہلاک 25 زخمی ہوئے۔ اس دھماکے کا شک کروشیا کے قوم پرستوں پر کیا گیا۔
  • 21 ستمبر 1976 کو واشنگٹن ڈی سی (Washington, DC) میں دو چینی باشندوں کو کار بمبنگ میں قتل کر دیا گیا۔
  • 3 نومبر 1979 کو شمالی کیرولینا (North Carolina) میں ایک احتجاج میں فائرنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں 5 افراد ہلاک اور 11 افراد ہلاک ہوئے۔
  • 15 نومبر 1979 کو شکاگو، الیوینس (Chicago, Illinois) میں بم کی وجہ سے امریکن ایئر لائن میں دھواں بھر گیا طیارے کو محفوط طریقے سے زمین پر اتار لیا گیا دھویں کی وجہ سے بارہ افراد متاثر ہوئے۔
  • یکم دسمبر 1979 کو سبانا سیکا، پورٹو ریکو(Sabana Seca, Puerto Rico) میں نیوی کی بس پر حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں دو افراد ہلاک اور دس زخمی ہوئے۔
  • 30 مارچ 1981 کو واشنگٹن ڈی سی( Washington, DC)میں صدر رونالڈ ریگن کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی اس سانحہ میں صدر رونالڈ ریگن سمیت تین افراد زخمی ہوئے۔
  • 25 ستمبر 1982 کو ولکس باریر، پنسلوانیا(Wilkes-Barre, Pennsylvaniaٌ) میں فائرنگ سے تیرہ افراد ہلاک کر دیے گئے۔
  • 18 جولائی 1984 کو سان یذڈورو، کیلیفورنیا(San Ysidro, California) میں میک ڈونلڈ ریستوران پر فائرنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں 22 افراد ہلاک اور 19 زخمی ہوئے۔
  • 9 سے 19 ستمبر 1984 تک ڈیلاس، اورگن (Dalles, Oregonٌ) میں بھگوان شری رنجیت کے 751 پیرو کار ایک ریستوران میں سالمونیلا پوائزنگ (فوڈ پوائزنگ) کا شکار ہوئے کسی نے ان کی خوراک میں زہر ملا دیا تھا۔
  • 16 مئی 1986 کو کوکیویل، وومنگ(Cokeville, Wyoming) میں آریان قوم سے تعلق رکھنے والے دو ارکان نے ایلیمنٹری اسکول کے 150 طلبہ اور اساتذہ کو یرغمال بنا لیا بم حادثاتی طور پر پھٹ گیا جس کے نتیجہ میں دو افراد ہلاک اور 79 افراد بچوں سمیت زخمی ہو گئے۔
  • 20 اگست 1986 کو ایڈمنڈ، اوکلاہوما(Edmond, Oklahoma) میں پوسٹ آفس میں پوسٹ آفس کے ملازم کی طرف سے فائرنگ کے نتیجہ میں 15 افراد ہلاک اور چھ افراد زخمی ہو گئے۔
  • 31 دسمبر 1986 کو سان جوآن، پورٹو ریکو(San Juan, Puerto Rico)میں ڈوپونٹ پلازا ہوٹل( Dupont Plaza Hotel) تین ملازمین نے ہوٹل انتظامیہ سے تنازع کے نتیجہ میں ہوٹل میں آگ لگا دی جس سے 97 افراد ہلاک اور 140 افراد زخمی ہو گئے اس سانحہ کے وقت بہت اسے افراد ہوٹل کے کیسینو میں موجود تھے۔
  • 25 مارچ 1990 کو نیویارک سٹی، نیویارک(New York City, New York) میں ایک سوشل کلب میں آگ لگا دی گئی جس کے نتیجہ میں 87 افراد ہلاک ہو گئے۔
  • 18 جون 1990 کو (جیکسن ویل، فلوریڈا) میں جی ایم اے سی آفس (GMAC office) میں فائرنگ کے نتیجہ میں دس افراد ہلاک اور چار افراد زخمی ہوئے۔
  • 16 اکتوبر 1991 کو لوبی ریستوران(Luby restaurant) میں فائرنگ کے حملہ میں 24 افراد جاں بحق اور 20 افراد زخمی ہوئے۔
  • 27 اپریل سے دو مئی 1992 تک لاس اینجلس، کیلی فورنیا(Los Angeles, California) میں بدترین سیاہ فسادات ہوئے جس کے نتیجہ میں 58 افراد ہلاک اور 4000 ہزار زخمی ہوئے۔
  • یکم مئی 1992 کو اولیوہرسٹ، کیلیفورنیا(Olivehurst, California) میں ہائی اسکول میں فائرنگ سے 4 افراد ہلاک اور دس زخمی ہوئے۔
  • 25 جنوری 1993 کو ورجینیا( Virginia) میں ایمل کانسی نے سی آئی اے ہیڈ کواٹر کے سامنے گاڑیوں میں موجود سی آئی اے ملازمین پر فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔
  • 14 دسمبر 1993 کو گارڈن سٹی، نیویارک(Garden City, New York) میں لانگ آئس لینڈ ٹرین (Long Island train) پر کولین فرگوسن کی فائرنگ سے چھ افراد ہلاک اور سترہ افراد زخمی ہو گئے۔
  • یکم مارچ 1994 کو نیویارک سٹی، نیویارک(New York City, New York) میں ایک شخص کی فائرنگ سے ایک یہودی طالب علم ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔
  • 20 جون 1994 کو واشنگٹن(Washington) میں بیس ہسپتال( base hospital) پر فائرنگ سے 4 افراد ہلاک اور 22 افراد زخمی ہو گئے۔
  • 9 اپریل 1995 کو اوکلاہوما سٹی، اوکلاہوما(Oklahoma City, Oklahoma) میں فیڈرل بلڈنگ میں ٹرک میں بم کا دھماکا ہوا جس کے نتیجہ میں 169 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 675 افراد زخمی ہو گئے۔
  • 24 فروری 1997 کو نیویارک سٹی، نیویارک(New York City, New York) میں فلسطینی گن مین نے ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ میں فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں دو افراد ہلاک اور چھ افراد زخمی ہو گئے۔ حملہ آور نے خود کو بھی ہلاک کر لیا۔
  • 23 مارچ 1998 کو جونزبورو، آرکنساس(Jonesboro, Arkansasٌ) میں مڈل اسکول میں دو طالب علموں کی فائرنگ سے چار طالب علم اور ایک ٹیچر ہلاک ہو گئے جبکہ 9 طلبہ اور دو افراد زخمی ہوئے۔
  • 21 مئی 1998 کو اسپرنگ فیلڈ، اورگن(Springfield, Oregon) میں رہائش گاہ اور اسکول پر فائرنگ کے حملہ میں 4 افراد ہلاک اور 25 افراد زخمی ہوئے۔
  • 20 اپریل 1999 کو لٹلیٹن، کولوراڈو(Littleton, Colorado) میں کولمبین ہائی اسکول میں دو طالب علموں کے حملہ میں 15 افراد ہلاک اور 27 افراد زخمی ہوئے دونوں حملہ آوروں نے خود کو بھی ہلاک کر لیا۔
  • 31 اکتوبر 1999 کو اٹلانٹک اوقیانوس، میساچیٹس(Atlantic Ocean, Massachusettsٌ) میں مصر کی ایئر فلائٹ بوئنگ 767 کے پائلٹ نے جہاز کا انجن بند کر دیا اور جہاز کا رخ زمین کی طرف کر دیا جس کے نتیجہ میں جہاز تباہ ہو گیا اور 217 افراد ہلاک ہو گئے [21]
  • 11 ستمبر 2001 کو نیویارک سٹی، نیویارک(New York City, New York) میں دہشت گردوں نے دو اغواشدہ طیاروں کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت سے ٹکرا دیا جس کے نتیجہ میں 2759 افراد ہلاک اور 8700 افراد زخمی ہو گئے اور عمارت تباہ ہو گئی۔[22]
  • 11 ستمبر 2001 کو آرلنگٹن، ورجینیا(Arlington, Virginia) میں پنٹاگون کی عمارت سے دہشت گردوں نے اغوا شدہ طیارہ ٹکرا دیا جس کے نتیجہ میں 189 افراد ہلاک اور 200 افراد زخمی ہو گئے، [23]
  • 11 ستمبر 2001 کو سومرسیٹ کاؤنٹی، پنسلوانیا(Somerset County, Pennsylvania) میں پنسلوانیا کے دیہی علاقے میں اغوا شدہ جہاز پر مسافروں نے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجہ میں جہاز حادثہ کا شکار ہو گیا اور اس سانحہ میں 45 افراد ہلاک ہو گئے۔[24]
  • 9 اکتوبر 2001 کو واشنگٹن ڈی سی(Washington, DC) میں انتھراکس بیماری کے بیکٹیریا سے آلودہ خطوط لوگوں کو بھیجے گئے جس کی وجہ سے 4 افراد جاں بحق ہو گئے اور سات افراد ہسپتال پہنچ گئے۔[26]
  • 3 اکتوبر 2002 کو اسپن ہل، میری لینڈ(Aspen Hill, Maryland) میں بیلٹ وے سنائپر کی طرف سے فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں 5 افراد ہلاک ہو گئے۔
  • 8 جولائی 2003 کو مرڈیان، مسیسپی(Meridian, Mississippi) فائرنگ کے حملہ میں سات افراد ہلاک اور آٹھ افراد زخمی ہو گئے۔
  • 21 مارچ 2005 کو ریڈ لیک، مینیسوٹا(Red Lake, Minnesotaٌٌ) میں انڈین ریزرویشن اسکول میں فائرنگ سے 10 افراد ہلاک اور 7 افراد زخمی ہوئے۔[27]
  • 28 جولائی 2006 کو سیٹل، واشنگٹن(Seattle, Washington) میں ایک مسلم دہشت گرد نے یہودی خواتین پر فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں ایک خاتون ہلاک اور 5 زخمی ہو گئیں۔
  • 27 ستمبر 2006 کو بیلی، کولوراڈو(Bailey, Colorado)ہائی اسکول میں طلبہ کو یرغمال بنا لیا گیا اور فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں 2 افراد ہلاک اور 5 زخمی ہوئے۔
  • 2 اکتوبر 2006 کو نکل مائنس، پنسلوانیا(Nickel Mines, Pennsylvania) میں اسکول ہائوس میں یرغمال بنائے گئے لوگوں پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں چھ افراد ہلاک پانچ زخمی ہوئے۔[28]
  • 16 اپریل 2007 کو ورجینیا(Virginia) پولی ٹیکنیک انسٹیٹوٹ میں شدید فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں 33 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہو گئے۔
  • 10 مارچ 2009 کو البامہ(Alabama) میں سمسون اور جنیوا کے کاروباری علاقوں اور رہائش گاہوں میں فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں 11 افراد ہلاک اور چھ افراد زخمی ہو گئے۔
  • 3 اپریل 2009 کو بنگہمٹن، نیویارک(Binghamton, New York) میں تارکین وطن کے مرکز پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں 14 افراد ہلاک اور 4 زخمی ہو گئے۔
  • 5 نومبر 2009 کو فورٹ ہڈ، ٹیکساس(Fort Hood, Texas) میں فوجی تیاری کے مرکز پر فائرنگ سے حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں 13 افراد ہلاک اور 44 زخمی ہو گئے۔[29]
  • 18 فروری 2010 کو آسٹن، ٹیکساس(Austin, Texas) میں وفاقی دفتر کی عمارت پر ایک چھوٹے جہاز کا خودکش حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں 2 افراد ہلاک اور 13 افراد زخمی ہو گئے۔[30]
  • 4 مارچ 2010 کو آرلنگٹن، ورجینیا(Arlington, Virginia) میں پنٹاگون کے باہر فائرنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں ایک گن مین مارا گیا اور دو افراد زخمی ہوئے۔[31]
  • 8 جنوری 2011 کو ٹکسن، ایریزونا(Tucson, Arizona) میں ایک سپر مارکیٹ میں ایک سیاسی تقریب میں فائرنگ کا حملہ ہوا جس میں ڈسٹرکٹ جج جان رول سمیت 6 افراد ہلاک ہوئے اور امریکی نمائندے Gabrielle Giffords سمیت 13 افراد زخمی ہوئے۔[32]
  • 6 ستمبر 2011 کو کارسن سٹی، نیواڈا(Carson City, Nevada) میں ایک ریستوران میں فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں 2 افراد فوری طور ہر جاں بحق ہو گئے اور 2 بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگئے جبکہ حملہ آور بھی ہلاک ہو گیا۔ اس سانحہ میں سات افراد بھی زخمی ہوئے۔
  • 20 جولائی 2012 کو اورورا، کولوراڈو(Aurora, Colorado) میں ایک فلم تھیٹر میں ایک دہشت گرد کی فائرنگ سے 12 افراد ہلاک اور 58 افراد زخمی ہو گئے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔
  • 5 اگست 2012 کو اوک کریک، وسکونسن(Oak Creek, Wisconsin) میں ایک سکھوں کی عبادت گاہ میں فائرنگ کی گئی جس میں ایک پولیس آفیسر سمیت 7 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ اس سانحہ میں 6 افراد زخمی بھی ہوئے۔[33]
  • 14 اگست 2012 کو ایک تفتیشی حملہ میں لاپلیس، لوئیزا(LaPlace, Louisiana) میں 2 افراد ہلاک جبکہ 4 افراد زخمی ہو گئے۔ سات افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔
  • 15 اپریل 2013 کو بوسٹن، میساچوسٹس۔(Boston, Massachusetts) میں دہشت گردوں کی طرف سے دو بم دھماکے کیے گئے جس کے نتیجہ میں ایک بچے سمیت تین افراد ہلاک ہوئے اور آٹھ بچوں سمیت 264 افراد زخمی ہوئے۔[34]
  • 16 ستمبر 2013 کو واشنگٹن ڈی سی(Washington, DC) میں نیوی یارڈ میں فائرنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں 13 افراد یلاک جبکہ 3 افراد زخمی ہوئے۔
  • 13 اپریل 2014 کو اوورلینڈ پارک، کینساس(Overland Park, Kansas) میں یہودی برادری پر ریٹائر منٹ ہوم پر فائرنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں 3 افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک نوجوان شامل تھا۔[35]
  • 8 جون 2014 کو لاس ویگاس، نیواڈا۔(Las Vegas, Nevada) میں ایک ریستوران اور سٹور میں فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں دو پولیس ایلکاروں سمیت تین افراد ہلاک ہوئے جبکہ فائرنگ کرنے والے دونوں افراد نے خود کو بھی ہلاک کر لیا۔[36]
  • 20 دسمبر 2014 کو نیو یارک سٹی، نیو یارک۔(New York City, New York) میں ایک حملہ آور نے فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں دو پولیس آفیسر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ حملہ آور نے خود کو بھی ہلاک کر لیا۔[37]
  • 17 جون 2015 کو چارلسٹن، جنوبی کیرولائنا(Charleston, South Carolina) میں بائبل کے بائبل کے مطالعاتی گروپ پر ایمانوئل افریقی میتھوڈسٹ ایپسکوپل چرچ پر بندوق بردار نے 9 افراد کو ہلاک کر دیا۔جبکہ ایک شخص زخمی بھی ہوا [38]
  • یکم اکتوبر 2015 کو روزبرگ، اوریگون۔(Roseburg, Oregon) امپکو کمیونٹی کالج میں فائرنگ کے حملے میں 9 افراد ہلاک اور 9 زخمی ہو گئے۔ شوٹر نے خود کو ہلاک کر دیا۔
  • 27 نومبر 2015 کو کولوراڈو اسپرنگس، کولوراڈو۔(Colorado Springs, Colorado)میں ایک گن میں نے پلانٹ پیرنٹ کلینک کے باہر دو عام شہریوں اور ایک پولیس والے کو ہلاک کر دیا جبکہ 4 شہری اور 5 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔[39]
  • 2 دسمبر 2015 کو سان برنارڈینو، کیلیفورنیا۔(San Bernardino, California) میں کاؤنٹی کے ملازمین کی میٹنگ اور کرسمس پارٹی میں دو حملہ آوروں نے 14 کو ہلاک اور 21 کو زخمی کر دیا۔ دونوں حملہ آور گھنٹوں بعد پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے تھے جس میں 2 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔[40]
  • 12 جون 2016 کو اورلینڈو، فلوریڈا۔(Orlando, Florida) میں ایک نائٹ کلب میں فائرنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں 50 افراد ہلاک اور 53 افراد زخمی ہوئے۔
  • 7 جولائی 2016 کو ڈلاس، ٹیکساس(Dallas, Texas) میں احتجاجی ریلی میں سنائپر (sniper) حملے میں 5 پولیس اہلکار ہلاک، 8 پولیس افسران اور 2 شہری زخمی حملہ آور پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔
  • 17 جولائی 2016 کو بیٹن روج، لوزیانا۔(Baton Rouge, Louisiana) میں فائرنگ کے تبادلے میں 3 پولیس اہلکار ہلاک، 3 پولیس اہلکار زخمی جبکہ پولیس نے حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
  • 17 ستمبر 2016 کو سینٹ کلاؤڈ، مینیسوٹا۔(Saint Cloud, Minnesota) میں شاپنگ مال میں چھریوں کے حملے میں ایک 15 سالہ بچی سمیت 10 زخمی ہو گئے۔ پولیس نے حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
  • 17 ستمبر 2016 کو نیو یارک سٹی، نیویارک۔(New York City, New York) میں مین ہیٹن میں سڑک پر بم دھماکے میں 29 افراد زخمی اضافی بم مین ہٹن اور قریبی نیو جرسی کے دیگر مقامات پر پائے گئے لیکن محفوظ طریقے سے ان بموں کو ناکارہ بنا دیا گیا۔
  • 28 نو، بر 2106 کو کولمبس، اوہائیو(Columbus, Ohio) میں اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں طلبہ پر گاڑیوں کا حملہ، جس کے بعد ڈرائیور نے لوگوں پر چاقو سے حملہ کیا۔ پولیس نے حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔اس واقعہ میں شخص ہلاک اور گیارہ افراد زخمی ہوئے۔
  • 6 جنوری 2017 کو فورٹ لاؤڈرڈیل، فلوریڈا۔(Fort Lauderdale, Florida) میں فورٹ لاؤڈرڈیل ہوائی اڈے پر فائرنگ کا حملہ؛ 5 ہلاک، 6 زخمی؛ ایئر پورٹ سے 12،000 افراد کو نکالا گیا۔
  • 14 جنوری 2017 کو اسکندریہ، ورجینیا(Alexandria, Virginia) بیس بال کے میدان میں ریپبلکن قانون سازوں کو نشانہ بناتے ہوئے فائرنگ کا حملہ؛ 5 زخمی جن میں امریکی نمائندے اسٹیو اسکیلیز اور 1 پولیس آفیسر شامل ہیں۔ حملہ آور کو گولی مار دی گئی۔
  • 12 اگست 2017 کو چارلوٹز ویل، ورجینیا۔(Charlottesville, Virginia) میں احتجاجی مظاہرین پر گاڑیاں چڑھا دی گئیں جس کے نتیجہ میں ایک شخص ہلاک جبکہ 19 افراد زخمی ہو گئے۔
  • 24 ستمبر 2017 کو چرچ کی خدمت پر معمور افراد پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں ایک شخص ہلاک اور حملہ آور سمیت 8 افراد زخمی ہو گئے۔
  • یکم اکتوبر 2017 کو لاس ویگاس، نیواڈا۔(Las Vegas, Nevada) میں کنسرٹ پر سنائپر سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں 59 افراد ہلاک اور 527 افراد زخمی ہوئے ہلاک ہونے والوں میں ایک پولیس آفیسر اور دو کنیڈین شہری بھی شامل تھے جبکہ حملہ آور نے خود کو ہلاک کر لیا۔
  • 31اکتوبر 2017 کو نیو یارک سٹی، نیویارک۔(New York City, New York) میں حملہ آور نے موٹر سائیکل کو گاڑی میں گھسا دیا۔ جس کے نتیجہ میں میں 8 افراد ہلاک (5 ارجنٹائن کے شہری اور 1 بیلجئیم شہری شامل تھے)، پھر اسکول بس میں گھس گیا جس کے نتیجے میں 4 زخمی ہو گئے (2 بچوں سمیت)۔ حملہ آور کو گولی مار کر زخمی کر دیا گیا۔ [41]
  • 5 نومبر 2017 کو سدرلینڈ اسپرنگس، ٹیکساس۔(Sutherland Springs, Texas) میں عبادت کے دوران میں چرچ پر حملہ کیا گیا۔؛ ہلاکتوں میں 9 بچے ہلاک اور کم سے کم 4 بچے زخمی ہوئے۔ حملہ آور کو گولی مار دی گئی جو بعد میں ہلاک ہو گیا گیا۔
  • 14 فروری 2018 کو پارک لینڈ، فلوریڈا۔(Parkland, Florida) میں ایک سابقہ طالب علم ایک ہائی اسکول میں داخل ہوا، جس نے فائرنگ کرکے 14 طلبہ اور 3 عملے کے افراد کو ہلاک کر دیا۔ 25 دیگر زخمی ہوئے۔
  • 2 مارچ 2018 کو آسٹن، ٹیکساس۔(Austin, Texas) میں آسٹن کے علاقے میں ایک سے زیادہ پیکیج بم دھماکے: 2 مارچ کو ایک گھر پر بم دھماکے میں 1 ہلاک 12 مارچ کو گھروں پر ہوئے دو بم دھماکوں میں ایک 17 سالہ بچی ہلاک اور دو بالغ افراد زخمی ہوئے۔ 18 مارچ کو رہائشی فٹ پاتھ پر بم دھماکے میں 2 زخمی 20 مارچ کو شیرٹز میں شپنگ کی سہولت پر پیکیج دھماکے میں 1 زخمی 21 مارچ کو بمبار نے دھماکے میں خود کو ہلاک کر دیا، ایک پولیس اہلکار کو بھی زخمی کر دیا۔
  • 18 مئی 2018 کو سانٹا فی، ٹیکساس(Santa Fe, Texas) میں ہائی اسکول میں ایک طالب علم کی فائرنگ کے نتیجہ میں 10 افراد ہلاک اور 14 افراد زخمی ہوئے۔
  • 27 اکتوبر 2018 کو پِٹسبرگ، پنسلوانیا۔(Pittsburgh, Pennsylvania) میں ایک یہودی عبادت گاہ میں یہودی نمازیوں پر فائرنگ کا حملہ؛ جس کے نتیجہ 11 افراد ہلاک اور 7 افراد زخمی ہوئے زخمی ہونے والوں میں 4 پولیس افسر شامل تھے۔ دہشت گرد کو گولی مار کر گرفتار کر لیا گیا۔
  • 7 نومبر 2018 کو تھائوزنڈ اوکس، کیلیفورنیا۔(Thousand Oaks, California) میں بار میں فائرنگ کا حملہ؛ جس کے نتیجہ میں 13 افراد ہلاک اور 12 افراد زخمی ہو گئے۔ حملہ آور نے خود کو ہلاک کر لیا۔
  • 27 1پریل 2019 ک2 پووے، کیلیفورنیا۔(Poway, California) پووے میں یہودیوں کے عبادت خانے میں فائرنگ سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں ایک شخص ہلاک اور تین افراد زخمی ہوئے۔
  • 31 مئی 2019 کو ورجینیا بیچ، ورجینیا۔(Virginia Beach, Virginia) میں میونسپل عمارت پر فائرنگ کا حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں 13 افراد ہلاک اور 5 افراد زخمی ہوئے۔ حملہ آور مارا گیا۔
  • 13 جولائی 2019 کو گلروئی، کیلیفورنیا۔(Gilroy, California) میں گلروئی گارلک (لہسن) فیسٹیول میں فائرنگ کا حملہ؛ جس کے نتیجہ میں 4 افراد ہلاک اور 15 افراد زخمی ہوئے۔ حملہ آور نے خود کو ہلاک کر لیا۔
  • 3 اگست 2019 کو ایل پاسو، ٹیکساس۔(El Paso, Texas) میں والمارٹ اسٹور پر فائرنگ کا حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں 22 افراد ہلاک اور 24 افراد زخمی ہوئے۔
  • 4 اگست 2019 کو ڈیٹن، اوہائیو (Dayton, Ohio) میں بار کے باہر فائرنگ کا حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں 10 افراد ہلاک اور 27 افراد زخمی ہوئے۔پولیس نے حملہ آور کو ہلاک کر دیا[42]

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات

ترمیم

پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ہونے والا ملک ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اب تک ستر ہزار سے زیادہ افراد دہشت گردی کی وجہ سے ہلاک اور شہید ہو چکے ہیں اور ہزاروں افراد زخمی اور معذور ہو چکے ہیں پاکستانی فوج کے افیسرز اہلکار، سیکورٹی اداروں کے اہلکار، رینجرز کے اہلکار اور پولیس کے اہلکار دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان بحق ہو چکے ہیں۔اس سب قربانیوں کے باوجود افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کے ناعاقبت لوگ بجائے پاکستان اور پاکستانی عوام کو سرہاتے اور پاکستان کا احسان مانتے اور پاکستان کی تعریف کرتے کہ پاکستان نے دہشت گردی کا مقابلہ جس طرح کیا اس کی مثال شاید ہی دنیا میں کبھی ملے لیکن اس دنیا میں تو گنگا ہمیشہ ہی الٹی بہتی ہے یہ احسان فراموش دنیا پاکستان سے ہمیشہ ڈو مور کا مطالبہ ہی کرتی رہتی ہے اور پاکستان کو سب قربانیوں کے باوجود دہشت گرد ملک ہی سمجھا جاتا ہے۔

2001 ایک تک پاکستان میں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن افغانستان میں روس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں یہی دہشت گرد جو امریکا اور یورپی ممالک کی نظر میں مجاہدین تھے لیکن افغانستان میں روسی فوجوں کی واپسی کے بعد امریکا نے اپنا مطلب پورا ہونے کے بعد افغانستان کو لاوارث چھوڑ دیا جس کے نتیجہ میں اس خطہ میں دہشت گردی پھوٹ پڑی اور اس سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہوا ایک طرف لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ پاکستان پر پڑ گیا اور ان افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان جیسے پرامن ملک میں دہشت گردی جو نہ ہونے کے برابر تھی دہشت گردی نے جنم لینا شروع کیا نو گیارہ کے سانحہ کے بعد یہی مجاہدین جو امریکا اور یورپی ممالک کی آنکھ کا تارا تھے اب بدترین دہشت گرد کہلائے جانے لگے مجاہدین اب امریکا کی ہی آنکھوں میں کھٹکنے لگے ان سب باتوں کے اثرات کو پاکستان کو برداشت کرنا پڑا اور پاکستان جہاں دہشت گردی کا نام و نشان تک نہ تھا اب پاکستان کو دہشت گردی کے بہت بڑے طوفان کا سامنا کرنا پڑا جس کا پاکستانی فوج اور دیگر سیکورٹی کے اداروں اور عوام نے جوانمردی سے سامنا کیا اور دہشت گردی پر بہت حد تک قابو پالیا لیکن اب بھی بہت سا کام کرنا باقی ہے اس سارے منظرنامے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو دہشت گرد تحریک سمجھا جانے لگا۔ پاکستان میں 2001 سے دہشت گردی کے واقعات درج ذیل ہیں

  • 28 اکتوبرکو جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور میں پروٹسٹنٹ چرچ پر حملے کے نتیجے میں 16 افراد ہلاک اور 6 زخمی ہو گئے۔ حادثے میں ایک پولیس افسر کے سوا تمام مسیحی عبادت گزار تھے۔ [43]
  • 21 دسمبر کو پاکستانی وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کے بڑے بھائی احتشام الدین حیدر کو کراچی کے سولجر بازار کے قریب حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔[44]
  • 22 فروری کو امریکی صحافی ڈینیئل پرل کو کراچی میں اغوا کرکے قتل کر دیا گیا۔[45]
  • 26 فروری کو راولپنڈی میں شاہ نجف مسجد میں نقاب پوش بندوق برداروں کے ایک گروہ کی بلااشتعال فائرنگ سے 11 شیعہ نمازی ہلاک ہو گئے۔[46]
  • 17 مارچ 2002 کو اسلام آباد میں ڈپلومیٹک انکلیو میں ایک پروٹسٹنٹ چرچ پر دستی بم حملے میں ایک امریکی سفارت کار کی اہلیہ اور بیٹی سمیت پانچ افراد ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔[47]
  • 7 مئی 2002 کو لاہور کے شہر اقبال ٹاؤن میں مذہبی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک، ان کے ڈرائیور اور ایک پولیس اہلکار کو دو بندوق برداروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔[48]
  • 8 مئی 2002 کراچی میں شیراٹن ہوٹل کے قریب بس بم دھماکے میں 11 فرانسیسی اور 3 پاکستانی ہلاک ہو گئے۔[49]
  • 14 جون 2002 کو کراچی میں امریکی قونصلیٹ کے محافظوں کے قریب ایک طاقتور کار بم پھٹا جس میں 12 افراد ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ قونصل خانے کی بیرونی دیوار کا ایک حصہ اڑا دیا گیا۔[50]
  • 13 جولائی 2002 کو مانسہرا ضلع میں آثار قدیمہ کے قریب حملے میں نو غیر ملکی سیاح اور تین پاکستانی شہری زخمی ہو گئے۔[51]
  • 5 اگست 2002 کو مری کے پہاڑی سیاحت میں غیر ملکی طلبہ کے لیے مشنری اسکول پر بندوق بردار حملے میں 6 افراد ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ چار بندوق برداروں نے کیا، جب انھوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی، تاہم ہلاک ہونے والوں میں کوئی شاگرد شامل نہیں تھا، یہ سب اسکول میں پاکستانی گارڈز اور ملازمین تھے۔[52]
  • 9 اگست 2002 کو شمالی پنجاب کے شہر ٹیکسلا میں ٹیکسلا کرسچن اسپتال میں چرچ پر دہشت گردوں کے حملے میں 3 نرسیں اور ایک حملہ آور ہلاک ہو گئے جبکہ 25 زخمی ہو گئے۔[53]
  • 25 ستمبر2002 کو مسلح افراد نے کراچی میں ایک عیسائی فلاحی تنظیم کے دفاتر پر دھاوا بول دیا، دفتر کے سات کارکنوں کو قریبی حدود میں سر میں گولی مارنے سے پہلے اپنی کرسیوں سے باندھ دیا۔[54]
  • 16 اکتوبر2002 کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پارسل بم دھماکوں کے سلسلے میں آٹھ سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے۔[55]
  • 15 نومبر 2002 کو سندھ کے شہر حیدرآباد میں ایک بس میں دھماکے کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور کم از کم نو دیگر زخمی ہو گئے۔[56]
  • 5 دسمبر2002 کو کراچی شہر میں مقدونیائی اعزازی قونصل خانے پر حملے میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔ دفتر میں دھماکے سے پہلے ہلاک ہونے والے - تمام پاکستانی - بندھے ہوئے تھے، گھات لگائے اور مارے گئے تھے۔[57]
  • 25 دسمبر 2002 کو پاکستان کے وسطی صوبہ پنجاب میں نامعلوم حملہ آوروں نے ایک پریسبیٹیرین چرچ پر دستی بم پھینکا، جس میں تین کمسن بچیاں جاں بحق ہوگئیں۔ سیالکوٹ کے قریب ڈسکہ پر حملے میں کم از کم 12 دیگر زخمی ہو گئے۔[58]
  • 28 فروری 2003 کو کراچی میں امریکی قونصل خانے کے باہر دو پولیس اہلکاروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، اسی جگہ جہاں نو ماہ قبل کار بم دھماکے سے 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔[59]
  • 10 مارچ 2003 کو فیصل آباد کی گلستان کالونی میں ایک نقاب پوش دہشت گرد نے مسجد پر اندھا دھند فائرنگ کی جس سے دو افراد زخمی ہو گئے۔[60]
  • 8 جون 2003 کو کوئٹہ کے سریاب روڈ پر فرقہ وارانہ حملہ ہونے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ 11 پاکستانی پولیس ٹرینیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا کیونکہ وہ سب کا تعلق اسلام کی ہزارہ شیعہ شاخ سے تھا۔ مزید 9 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔[61]
  • 4 جولائی 2003 کو جنوب مغربی پاکستان کے شہر کوئٹہ میں شیعہ مسجد پر حملے میں کم از کم 47 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہو گئے۔[62]
  • 3 اکتوبر 2003 کو کراچی کے شہر ماوری پور میں حب ریور روڈ پر ان کی سرکاری وین پر فائرنگ کے نتیجے میں اسپیس اینڈ اپر فضا ماحول ریسرچ کمیشن (سوپورکو) کے 6 ملازمین ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ لشکر جھنگوی پر سرکاری طور پر چارج کیا گیا۔<refhttps://www.dawn.com/news/144854/karachi-evidence-concluded-in-suparco-killing-case></ref>
  • 6 اکتوبر 2003 کو ملت اسلامیہ (سابقہ سپاہ صحابہ پاکستان) کے سربراہ اور ایم این اے کے رہنما مولانا اعظم طارق کو نامعلوم مسلح افراد نے اس کے ساتھ ہی چار دیگر افراد کے ہمراہ قتل کر دیا جب ان کی کار دار الحکومت اسلام آباد جارہی تھی۔[63]
  • 14 دسمبر 2003 کو صدر پرویز مشرف قاتلانہ حملے میں زندہ بچ گئے جب ان کے محافظ قافلے نے راولپنڈی میں ایک پل کو عبور کرنے کے چند منٹ بعد ایک طاقتور بم پھٹ گیا۔ بظاہر پرویز مشرف کو اپنے لیموزین میں ایک جام آلے کے ذریعہ بچایا گیا تھا جس نے ریموٹ کنٹرول دھماکا خیز مواد کو پل سے اڑانے سے روک دیا جب ان کا قافلہ اس کے پاس سے گذرا۔[64]
  • 25 دسمبر 2003 کو 11 دن بعد صدر پر ایک اور حملہ کوشش کی گئی جب دو خود کش حملہ آوروں نے پرویز مشرف کو مارنے کی کوشش کی، لیکن وہ صدر کو مارنے میں ناکام رہے۔ اس کی بجائے آس پاس کے 16 دیگر افراد ہلاک ہو گئے۔ مشرف اپنی گاڑی پر صرف ٹوٹے ہوئے ونڈ اسکرین کے ساتھ محفوظ رہے۔ عسکریت پسند امجد فاروقی کو بظاہر ان کوششوں کے پیچھے ماسٹر مائنڈ ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا اور 2004 میں پاکستانی فورسز نے ایک آپریشن میں اسے ہلاک کر دیا تھا۔[65]
  • 28 فروری 2004 کو راولپنڈی کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں امام بارگاہ پر حملے میں ایک خودکش بمبار ہلاک اور تین نمازی زخمی ہو گئے۔[66]
  • 2 مارچ 2004 کو کوئٹہ کے لیاقت بازار میں شیعہ مسلمانوں کے جلوس پر دیوبندی شدت پسندوں نے حملہ کیا جس کے نتیجہ میں کم از کم 42 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے۔[67][68]
  • 10 اپریل 2004 کو ایک ہال کے قریب پارکنگ کے علاقے میں کار بم پھٹنے سے کم از کم ایک شخص ہلاک اور تین دیگر زخمی ہو گئے جہاں سینکڑوں افراد بھارتی پاپ گروپ سونو نگم کے کنسرٹ میں شریک تھے۔
  • 3 مئی 2004 کو جنوب مغربی شہر گوادر میں ایک کار بم دھماکے میں 3 چینی انجینئر ہلاک اور 10 دیگر افراد زخمی ہو گئے۔[69]
  • 7 مئی 2004 کو ایک خودکش بمبار نے کراچی میں ایک پرہجوم شیعہ مسجد سندھ مدرستہ الاسلام میں حملہ کیا جس میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس حملے میں 100 سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے، ان میں سے 25 افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔ اس حملے کے بعد ہونے والے فسادات میں ایک شخص ہلاک ہوا۔ [70]
  • 14 مئی 2004 کو لاہور کے مغلپورہ علاقہ میں شیعہ خاندان کے 6 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔[71]
  • 26 مئی 2004 کو پاکستان امریکن کلچرل سنٹر کے باہر اور کراچی میں امریکی قونصل جنرل کی رہائش گاہ کے قریب 20 منٹ کے اندر دو کار بم دھماکے ہوئے، جس میں دو افراد ہلاک اور 27 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے، خاص طور پر پولیس اہلکار اور صحافی شامل تھے۔[72]
  • 30 مئی 2004 کو ایک سینئر دیوبندی عالم دین اور سربراہ اسلامی مذہبی اسکول جامعہ بنوریہ، مفتی نظام الدین شامعی زئی کو کراچی میں اپنے گھر جاتے ہوئے ان کی کار میں گولی مار دی گئی۔[73]
  • 31 مئی 2004 ایک خودکش بمبار نے شام کی نماز کے وسط میں کراچی میں واقع امام بارگاہ علی رضا کو دھماکے سے اڑا دیا، جس میں 16 نمازی جاں بحق اور 35 زخمی ہو گئے تھے۔ مسجد حملے اور شامعی زئی کے قتل کے واقعات میں ہونے والے فسادات میں دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔[74]
  • 10 جون 2004 کو کراچی میں اس وقت کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم حیات کو لے جانے والے قافلے پر مسلح افراد نے فائرنگ کردی۔ اس سانحہ میں 11 افراد ہلاک ہو گئے۔[75]
  • 30 جولائی 2004 کو وزیر اعظم منتخب ہونے والے شوکت عزیز پر اس وقت قاتلانہ حملہ ہوا جب وہ پنجاب کے ضلع اٹک کے ضلع فتح جنگ میں ضمنی انتخاب کی مہم چلا رہے تھے۔ اگرچہ وہ اس حملہ میں بچ گئے لیکن خود کش دھماکے کی وجہ سے نو افراد ہلاک ہو گئے۔[76]
  • 2 اگست 2004 کو وزیر اعلیٰٰ بلوچستان جام محمد یوسف قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے جب نامعلوم افراد نے ان کے قافلے پر فائرنگ کردی جس سے ان کا ایک محافظ ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔[77]
  • 8 اگست 2004 کو جامعہ بنوریہ مدرسہ، کراچی کے قریب دو بم پھٹنے سے 8 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہو گئے۔[78]
  • 31 اگست 2004 کو قلات کے بلوچی قصبے میں دکان پر ہوئے بم دھماکے میں 3 افراد ہلاک اور 3 زخمی ہو گئے۔[79]
  • 21 ستمبر 2004 کو سپاہ صحابہ کے مشتبہ ارکان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں فرقہ وارانہ حملے میں شیعہ خاندان کے کم از کم تین افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔[80]
  • یکم اکتوبر 2044 کو سیالکوٹ میں نماز جمعہ کے بعد شیعہ مسجد میں خودکش بم دھماکے میں 25 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔[81]
  • 7 اکتوبر 2004 کو ملتان میں سپاہ صحابہ پاکستان کے مقتول رہنما، مولانا اعظم طارق کی یاد میں سنی (دیوبندی) ریلی کے دوران میں ایک طاقتور کار بم دھماکے میں 40 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے۔ غالبا۔ یہ ایک ہفتہ قبل سیالکوٹ خودکش حملوں کا انتقام تھا۔[82]
  • 10 اکتوبر 2004 کو لاہور میں شیعہ مسلمانوں کے زیر استعمال مسجد میں خودکش بمبار کے دھماکے میں کم از کم چار افراد ہلاک اور آٹھ افراد زخمی ہو گئے۔[83]
  • 10 دسمبر 2004 کو کوئٹہ شہر کے ایک بازار میں بم دھماکے میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے۔ بم آرمی ٹرک کے قریب پھٹا، بلوچستان لبریشن آرمی نے اس بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی۔[84]
  • 8 جنوری 2005 کو شمالی پاکستان کے شہر گلگت میں فرقہ وارانہ تشدد میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہو گئے۔ قبل ازیں شیعہ مسلمان عالم کو گولی مار دی گئی جس کے نتیجہ میں ان کے حامیوں اور دیوبندیوں کے مابین جھڑپیں شروع ہوگئیں۔[85]
  • 19 مارچ 2005 کو بلوچستان، ضلع جھل مگسی کے دور دراز گائوں فتح پور میں پیر خیل شاہ کے مزار پر سپاہ صحابہ کے ایک دہشت گرد کے خود کش حملہ میں کم از کم 35 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔[86]
  • 25 مئی 2005 کو جنوبی وزیرستان کی تحصیل میکین کے گاؤں بانڈ خیل میں دھماکے کے نتیجے میں ایک کنبے کے چھ افراد ہلاک ہو گئے۔[87]
  • 27 مئی 2005 کو اسلام آباد میں بری امام کے مزار پر سالانہ شیعہ مسلم جماعت میں خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد ذبح اور 82 زخمی ہو گئے۔[88]
  • 31 مئی 2005 کو کراچی میں شیعہ مسجد پر حملے کے بعد مشتعل ہجوم نے نذرآتش کی ہوئی فاسٹ فوڈ دکان سے چھ لاشیں برآمد کیں۔ وسطی کراچی میں شیعہ مسجد پر خودکش حملے کی جوابی فائرنگ تھی جہاں پانچ افراد ہلاک اور 20 کے قریب زخمی ہوئے۔[89]
  • 22 ستمبر 2005 کو لاہور میں دو بم دھماکوں میں خاتون سمیت 6 افراد ہلاک اور 27 زخمی ہو گئے۔ پولیس نے بتایا کہ بم ڈیڑھ گھنٹہ کے وقفے میں پھٹ گئے۔[90]
  • 7 اکتوبر 2005 کو احمدیہ عقیدے کے 8 افراد مسجد کے اندر اس وقت ہلاک ہو گئے جب نمازی نماز پڑھ رہے تھے۔ یہ واقعہ پنجاب کے منڈی بہاؤ الدین میں پیش آیا۔[91]
  • 13 اکتوبر 2005 کو گلگت میں رینجرز اور عام شہریوں کے درمیان میں کرفیو اور جھڑپوں میں طلبہ سمیت 12 کے قریب افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ جھڑپیں رینجرز کی تحویل میں ایک طالب علم کی ہلاکت کے بعد ہوئی ہیں۔[92]
  • 15 نومبر 2005 کو کراچی میں کینٹکی فرائیڈ چکن دکان کے باہر کار بم پھٹا۔ کم از کم تین افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے۔[93]
  • 8 دسمبر 2005 کو جنوبی وزیرستان کے قصبے جنڈولا میں بم دھماکے میں 12 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے۔[94]
  • 22 دسمبر 2005 کو جنوبی وزیرستان کے شہر جندولا میں اسلامی طلبہ اور ڈاکوؤں کے مابین ہونے والی لڑائی کے بارے میں حکام کے مطابق کم از کم سات افراد ہلاک ہو گئے۔[95]
  • 25 جنوری 2006 کو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگ کے اوپر بس کے ٹکراؤ کے نتیجے میں 6 افراد ہلاک اور 5 زخمی ہو گئے۔[96]
  • 5 فروری 2006 کو بلوچستان کے ضلع بولان کے علاقہ کولن پور میں کوئٹہ سے لاہور جانے والی بس پر بم دھماکے میں 3 فوجی اہلکاروں سمیت 13 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہو گئے۔ کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔[97]
  • 9 فروری 2006 کو ملک کے شمال مغربی حصے میں واقع ہنگو میں یوم عاشورا کے موقع پر شیعوں پر ہونے والے ایک خودکش حملہ کے بعد تشدد پھیل گیا جس میں 36 افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے۔[98]
  • 2 مارچ 2006 کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے پاکستان پہنچنے سے ایک روز قبل امریکی قونصلیٹ، کراچی کے قریب ہائی سیکیورٹی زون میں خودکش کار بم حملے میں ایک امریکی سفارت کار سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے۔[99]
  • 10 مارچ 2006 کو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگ کے پھٹنے سے 26 افراد ہلاک ہو گئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے۔ قبائلی باغی اور سیکیورٹی فورسز دونوں نے علاقے میں بارودی سرنگیں نصب کیں تھیں۔[100]
  • 11 اپریل 2006 کو کراچی کے نشتر پارک میں عید میلادالنبی منانے والے ایک مذہبی اجتماع میں بم دھماکے میں سنی (بریلوی) اسکالرز سمیت 50 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔[101]
  • 12 جون 2006 کو کوئٹہ کے ہوٹل میں بم حملے میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 17 زخمی ہو گئے۔[102]
  • 15 جون 2006 کو جنوبی پاکستان کے شہر کراچی میں نامعلوم مسلح افراد نے جیل کے ایک سینئر اہلکار امان اللہ خان نیازی اور چار دیگر افراد کو ہلاک کر دیا۔[103]
  • 16 جون 2006 کو اورکزئی ایجنسی کے کھوگا چیری گاؤں میں دو خواتین اساتذہ اور دو بچوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔[104]
  • 14 جولائی 2006 کو شیعہ مذہبی اسکالر اور تحریک جعفریہ پاکستان کے سربراہ علامہ حسن ترابی اور ان کا 12 سالہ بھتیجا عباس ٹاؤن کی رہائش گاہ کے قریب خودکش حملے میں ہلاک ہو گئے۔ بعد ازاں خودکش حملہ آور کی شناخت عبد الکریم کے نام سے ہوئی، جو بنگالی بولنے والا تھا اور کراچی کے وسطی شہر کے علاقے میں ایک قصبے کا رہائشی تھا۔[105]
  • 26 اگست 2006 کو قبائلی رہنما نواب اکبر بگٹی بلوچستان میں قبائلی عسکریت پسندوں اور سرکاری فوج کے مابین لڑائی میں مارے گئے۔ اس واقعہ میں کم سے کم پانچ فوجی اور کم از کم 30 باغی بھی ہلاک ہوئے۔[106]
  • 26–31 اگست 2006 تک اکبر بگٹی کے قتل کے بعد پانچ روز ہنگامہ آرائی رہی جس میں 6 افراد ہلاک، درجنوں زخمی ہوئے اور 700 افراد کو حراست میں لیا گیا۔[107]
  • 8 ستمبر 2006 کو بلوچستان کے ضلع بارکھان کے رخنی بازار کے علاقے میں زوردار بم دھماکے کے نتیجے میں 6 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہو گئے، ان میں سے چار شدید زخمی ہوئے۔[108]
  • 6 اکتوبر 2006 کو پاکستان کے قبائلی علاقے اورکزئی میں اٹھارہویں صدی کی شخصیت سید امیر انور شاہ کے مزار پر ملکیت کے تنازع پر سنی اور شیعہ مسلمانوں کے مابین لڑائی میں 17 افراد ہلاک ہو گئے۔[109]
  • 20 اکتوبر 2006 کو پشاور کے مصروف شاپنگ ضلع میں ایک بم دھماکے میں کم از کم 6 افراد ہلاک اور 21 زخمی ہو گئے۔[110]
  • 8 نومبر 2006 کو شمال مغربی قصبے درگئی میں ایک خودکش بمبار نے پاکستانی فوج کے 42 فوجیوں کو ہلاک اور 20 کو زخمی کر دیا، باجوڑ کے علاقے میں پچھلے مہینے 80 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 2004 کے کراچی کور کمانڈر پر قاتلانہ حملے کے بعد آرمی پر یہ دوسرا حملہ تھا۔[111]
  • 15 جنوری 2007 کو جلوزئی پناہ گزینوں کے کیمپ میں ایک زوردار دھماکے سے مٹی کا مکان تباہ ہو گیا، جس میں چار افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔[112]
  • 26 جنوری 2007 کو پاکستان میں مشتبہ خودکش حملے میں دو افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔ دار الحکومت اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں ہونے والے دھماکے میں خودکش بمبار اور ایک سکیورٹی گارڈ ہلاک ہو گئے۔[113]
  • 27 جنوری 2007 کو پشاور میں ایک پرہجوم شیعہ مسجد کے قریب خودکش بم دھماکے میں ہفتہ کی شام پشاور سٹی پولیس کے چیف ملک سعد سمیت 13 افراد ہلاک ہو گئے۔ 9: 20 بجے کے وقت، تقریباۖ 60 افراد زخمی ہوئے، جن میں 17 افراد شدید زخمی ہوئے۔ دھماکا پولیس نے بتایا کہ قریب 2 ہزار شیعہ مسلمان مسجد کے آس پاس اور مسجد میں موجود ہوئے۔[114]
  • 29 جنوری 2007 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑالیا جس کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک اور 7 زخمی ہو گئے۔[115]
  • 6 فروری 2007 کو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے باہر پارکنگ ایریا میں خودکش بمبار نے ا دھماکا کیا جس میں 5 افراد زخمی ہو گئے۔[116]
  • 17 فروری 2007 کو کوئٹہ، بلوچستان میں ایک کمرہ عدالت کے اندر خود کو دھماکے سے اڑانے کے بعد ایک خودکش بمبار نے ایک جج سمیت 15 افراد کو ہلاک کر دیا۔ خود کش حملے میں کم از کم 24 افراد زخمی ہوئے۔[117]
  • 20 فروری 2007 کو پنجاب کے وزیر برائے سماجی بہبود ذی الحما عثمان کو گوجرانوالہ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔[118]
  • 19 سے 22 مارچ 2007 تک وزیرستان کے علاقے میں مولوی نذیر اور القاعدہ کی باقیات کے تحت حکومت نواز فورسز کے مابین جھڑپوں میں دونوں اطراف کے کم از کم 135 افراد ہلاک ہو گئے۔ جنگ بندی کا اعلان دونوں اطراف کے عہدے داروں کے ذریعہ چار دن تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد کیا گیا۔[119]
  • 10 سے 11 اپریل 2007 تک کرم ایجنسی کے مختلف علاقوں میں منگل کی رات اور بدھ کے روز حریف شیعہ اور سنی (دیوبندی) گروپوں کے درمیان میں شدید لڑائی میں 35 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔[120]
  • 28 اپریل 2007 کو خیبر پختونخوا کے چارسدہ میں وزیر داخلہ آفتاب احمد شیر پاؤ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔[121]
  • 12 مئی 2007 کو مخالف جماعتوں کے پارٹی کارکنان کے درمیان میں تصادم کے نتیجہ میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے کراچی میں ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے درمیان میں تصادم۔ فسادات کا آغاز اس وقت ہوا جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے وکلا اور اپوزیشن پارٹیوں کا احتجاج جاری تھا اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی میں آمد کی کوشش ہورہی تھی۔[122]
  • 15 مئی 2007 کو پشاور کے مقامی مرحبا ہوٹل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں کم از کم 24 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے۔[123]
  • 2 جون 2007 کو باجوڑ ایجنسی کے دارا خاور میں ایک گاڑی سڑک کے کنارے نصب ایک بم سے ٹکرا گئی جب قبائلی سربراہ، ایک تحصیلدار اور ایک صحافی سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔[124]
  • 8 جون 2007 کو بلوچستان کے شہر حب میں بس پر بم پھٹنے سے 3 افراد ہلاک اور سات زخمی ہو گئے۔ کوچ لسبیلہ سے کراچی جارہی تھی۔[125]
  • 23 جون 2007 کو افغانستان سے فائر کیے گئے توپ خانے اور میزائلوں نے شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے منگروٹئی کے علاقے میں رہائشی کمپاؤنڈز اور ایک ہوٹل کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک اور 10 زخمی ہو گئے۔ عینی شاہدین اور عہدے داروں نے بتایا۔ ہلاک ہونے والوں میں دو بچے اور ایک خاتون شامل تھے۔[126]
  • 6 جولائی: - صدر جنرل پرویز مشرف جمعہ کی صبح ایک اور حملہ میں محفوظ رہے۔ جب راولپنڈی میں سب میشین گن سے ان کے طیارے پر لگ بھگ 36 راؤنڈز اپنا نشانہ کھو بیٹھے۔ [ایک اور واقعے میں، پاک فوج کے چار جوان، جن میں ایک میجر اور جماعت اسلامی اور کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مضبوط گڑھ - دیر ضلع میں ایک فوجی قافلے پر ایک دیسی ساختہ دھماکا خیز آلے کے حملے میں ایک لیفٹیننٹ ہلاک ہو گیا۔[127]
  • 8 جولائی: - نامعلوم مسلح افراد نے پشاور کے قریب تین چینی کارکنوں کو ہلاک اور ایک اور کو زخمی کر دیا جس میں پاکستانی عہدے داروں کا کہنا تھا کہ یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا جو بظاہر اسلام آباد کی ایک مسجد میں شدت پسندوں کے خونی محاصرہ سے منسلک تھا۔[128]
  • 12 جولائی 2007 کو خیبر پختونخوا کے تین قبائلی علاقوں اور ضلع سوات میں دو خودکش حملوں، دو دھماکوں اور راکٹ حملے میں تین پولیس اہلکاروں سمیت سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔[129]
  • 14 جولائی 2007 کو شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز پر ایک مہلک حملے میں میران شاہ میں ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی کو سیکیورٹی قافلے میں گھسادیا جس کے نتیجے میں کم از کم 23 نیم فوجی فوجی ہلاک اور 27 دیگر زخمی ہو گئے۔[130]
  • 15 جولائی 2007 کو لال مسجد آپریشن کی صریح انتقامی کارروائی میں خیبر پختونخوا میں خودکش حملہ اور کار بم دھماکے میں کم از کم 49 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے۔ ضلع سوات کے شہر مٹہ میں 11 سیکیورٹی اہلکار اور 6 شہری ہلاک اور 47 زخمی ہو گئے جب خودکش حملہ آوروں نے دھماکا خیز مواد سے بھری دو کاروں کو فوج کے قافلے میں گھسا دیا، ڈیرہ اسماعیل خان پولیس بھرتی مرکز میں ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 25 افراد ہلاک اور 61 زخمی ہو گئے۔[131]
  • 17 جولائی 2007 کو اسلام آباد میں ڈسٹرکٹ بار کونسل کنونشن کے مقام کے باہر خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں کم از کم 17 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہو گئے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آمد کے منتظر بیشتر پی پی پی کے سیاسی کارکن ہلاک ہو گئے۔[132]
  • 19 جولائی 2007 کو تین مختلف بم حملوں میں 40 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔ پہلے واقعے میں، کوہاٹ کے شمال مغربی قصبے میں فوجی جوانوں کے زیر استعمال مسجد میں بم پھٹا جس میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ 2004 کے بعد سے تنازع زون کے باہر فوج پر حملہ کرنے کا چوتھا واقعہ تھا۔ دوسرے واقعہ میں، بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے جنوبی قصبے حب میں 26 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے میں بظاہر چینی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اور آخری واقعہ میں، شمال مغربی قصبے ہنگو میں پولیس اکیڈمی میں خودکش کار بم دھماکے میں کم از کم 7 افراد ہلاک اور 20 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔[133]
  • 24 جولائی 2007 کو شمال مغربی شہر بنوں میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے شہری آبادی پر راکٹوں کے بیریج(barrage) فائر کرنے سے ایک خاتون سمیت 9 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہو گئے۔[134]
  • 27 جولائی 2007 کو اسلام آباد کے آبپارہ کے مظفر ہوٹل میں جمعہ کے روز ایک مشتبہ خودکش بمبار نے کم از کم 13 افراد کو ہلاک کر دیا، جبکہ جمعہ کے بعد پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ ہوئی جس میں پولیس نے مظاہرین پر پتھرائو کیا اور فوج کے لال مسجد پر حملہ کے بعد یہ مسجد پہلی بار دوبارہ کھولی گئی۔اسی دن کوئٹہ میں حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے بلوچستان حکومت کے ترجمان، سابق گوریلا کمانڈر، رازق بگٹی کو ہلاک کر دیا۔[135]
  • 2 اگست 2007 کو سرگودھا میں پولیس نے ایک مشتبہ خودکش حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔یہ شخص دھماکا خیز مواد کو پھاڑنے میں ناکام ہو گیا۔ پولیس ٹریننگ سینٹر میں داخل ہونے والے اس شخص نے فائرنگ سے پہلے ہی ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کردیاتھا۔[136]
  • 4 اگست 2007 کو کرم ایجنسی کے پاراچنار میں ایک مصروف بس اسٹیشن پر خودکش کار بمبار کے دھماکے کے نتیجے میں 9 افراد ہلاک اور 43 زخمی ہو گئے۔[137]
  • 26 اگست 2007 کو ضلع شانگلہ کے ماچار علاقے میں خودکش حملے میں چار پولیس اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔[138]
  • 4 ستمبر 2007 کو راولپنڈی چھاؤنی کے اعلیٰ سیکیورٹی علاقوں میں صبح کے اوقات کے دوران میں دو خودکش بم دھماکوں میں 25 افراد ہلاک اور 66 زخمی ہو گئے۔ پہلا دھماکا قاسم مارکیٹ کے قریب ہوا۔ جس میں 18 افراد ہلاک ہو گئے۔ پانچ منٹ بعد، دوسرا دھماکا جنرل ہیڈ کوارٹر کے پیچھے، آر اے بازار کے قریب ہوا۔ دھماکا ایک موٹرسائیکل پر نصب بارودی مواد کے باعث ہوا، جس کے نتیجہ میں 7 افراد کو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔[139]
  • 11 ستمبر 2007 کو ڈیرہ اسماعیل خان ضلع کے بنوں اڈا پر مسافر وین میں پندرہ سالہ خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑالیا جس کے نتیجہ میں 3 سیکیورٹی اہلکار اور ایک خاتون سمیت کم از کم 17 افراد ہلاک اور 16 زخمی ہو گئے۔ اسی دن عمر ایوب خان کے پروٹوکول آفیسر لیاقت حسین کو کراچی میں ناردرن بائی پاس کے قریب گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔[140]
  • 13 ستمبر 2007 کو تربیلا ڈیم کے قریب ہری پور کے علاقے تربیلا غازی میں آرمی آفیسرز پر بظاہر خودکش دھماکے میں کم از کم 20 آف ڈیوٹی کمانڈوز ہلاک اور 11 زخمی ہو گئے۔ نشانہ بنائے گئے پاک فوج کی اسپیشل فورس یونٹ ایس ایس جی کی کرار کمپنی کے آفیسرز تھے۔[141]
  • 15 ستمبر 2007 کو نامعلوم حملہ آوروں نے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور وفاق مدارس کے وائس چیئرمین مولانا حسن جان کو پشاور کے علاقے یکہ توت کے حدود میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ سابق ایم این اے حسن، نے خودکش حملوں کے خلاف بھی ایک فتویٰ جاری کیا تھا اور انھوں نے 2001 میں ملا عمر کو راضی کرنے کے لیے پاکستانی علما کے ایک گروپ کے ساتھ افغانستان کا سفر کیا تھا تاکہ وہ امریکی حملوں سے بچنے کے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکال دیں۔[142]
  • یکم اکتوبر2007 کو خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں پولیس کے مصروف چوکی پر خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس میں چار پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 16 افراد ہلاک اور 29 زخمی ہو گئے تھے۔[143]
  • 12 اکتوبر 2007 کو مہمند طالبان نے شریعت کے نام پر چھ "مجرموں" کا سرعام سر قلم کیا اور تین دیگر افراد پر کوڑے مارے۔[144]
  • 18 اکتوبر 2007 کو کراچی میں بے نظیر بھٹو کے قافلے پر ہونے والے حملے میں 139 سے زیادہ افراد ہلاک اور 450 سے زائد زخمی ہو گئے۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو 8 سال خود ساختہ جلاوطنی کے بعد واپس آرہی تھیں جب خود کش بمبار نے قافلے پر حملہ کیا جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔[145]
  • 20 اکتوبر 2007 کو ڈیرہ بگٹی، بلوچستان میں ایک پک اپ گاڑی میں نصب ایک طاقتور بم پھٹنے سے 8 افراد ہلاک اور 28 زخمی ہو گئے۔[146]
  • 25 اکتوبر 2007 کو شورش زدہ ضلع سوات میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے اہلکاروں کو لے جانے والی گاڑی کے دھماکے میں 18 فوجیوں سمیت کم از کم 20 افراد ہلاک اور 35 زخمی ہو گئے۔ یہ خودکش حملہ ہونے کا شبہ تھا۔[147]
  • 30 اکتوبر 2007 کو صدر جنرل پرویز مشرف کے کیمپ آفس سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر راولپنڈی کے ہائی سیکیورٹی زون میں ایک خودکش بمبار نے پولیس چوکی پر حملہ کیا، جس میں سات افراد ہلاک ہو گئے، ان میں سے تین پولیس اہلکار اور 31 دیگر زخمی ہو گئے۔[148]
  • 9 نومبر 2007 کو پشاور میں وفاقی وزیر برائے سیاسی امور اور مسلم لیگ ق کے صوبائی صدر امیر مقام کے گھر پر بارودی مواد پھٹنے سے ایک خودکش بمبار نے کم از کم تین افراد کو ہلاک اور دو کو زخمی کر دیا۔ وزیر زخمی نہیں ہوئے، لیکن اس کا ایک کزن زخمی ہو گیا۔ تینوں جاں بحق پولیس اہلکار گھر کی حفاظت کر رہے تھے۔[149]
  • 17 سے 19 نومبر 2007 تک افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کرم ایجنسی کے پاراچنار میں حریف سنی (دیوبندی) اور شیعہ مسلک کے مابین تین روز تک جاری لڑائی میں 94 افراد ہلاک اور 168 زخمی ہو گئے۔ چوتھے فوج نے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا اور علاقے میں جنگ بندی برقرار رہی۔[150]
  • 24 نومبر 2007 کو راولپنڈی میں دو خود کش حملوں میں 30 افراد ہلاک ہو گئے۔ پہلے واقعے میں، ایک خود کش حملہ آور نے اپنی کار کو 72 روٹر والی بس میں گھسادیا جو مری روڈ پر اوجڑی کیمپ کے سامنے کھڑی تھی، جس میں انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے اہلکار کام کرنے جا رہے تھے۔ دوسرا واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک دوسرے خودکش بمبار نے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ جی ایچ کیو کی چیک پوسٹ پر شناخت کے لیے پوچھے جانے پر، اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں ایک سیکیورٹی اہلکار اور ایک مسافر ہلاک ہو گیا۔[151]
  • 9 دسمبر 2007 کو ضلع سوات کے شہر مٹہ کے قریب کار بم دھماکے میں 3 پولیس اہلکار اور 7 شہریوں سمیت کم سے کم 10 افراد ہلاک ہو گئے۔[152]
  • 10 دسمبر 2007 کو صبح کی بھیڑ کے دوران میں بچوں کو لے جانے والی اسکول بس پر خودکش حملہ، ان میں سے 7 افراد زخمی ہو گئے۔ یہ پی اے ایف کے ملازمین کی بس تھی اور یہ حملہ منہاس ایئربیس، کامرا کے قریب ہوا۔ سرگودھا حملے کے بعد پاک فضائیہ پر یہ دوسرا بڑا حملہ تھا۔[153]
  • 13 دسمبر 2007 کو کوئٹہ میں آرمی چوکی کے قریب دو خودکش بم دھماکوں میں پاک فوج کے 3 اہلکاروں سمیت 7 افراد ہلاک ہو گئے۔[154]
  • 15 دسمبر 2007 کو نوشہرہ شہر میں خودکش حملے میں ایک خودکش حملہ آور نے اپنی بارود سے بھری سائیکل کو فوجی چوکی سے گھسادیا جس میں 5 افراد ہلاک اور 11 زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ آرمی اسکول کے گیٹ کے قریب ایک چوکی پر ہوا اور تنازع زون کے باہر فوج کے خلاف حملوں کے سلسلے میں یہ نویں نمبر پر تھا۔[155]
  • 17 دسمبر 2007 کو ملک کے شمال مغربی شہر کوہاٹ میں خود کش حملے میں 12 سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔ متاثرین فوج کی مقامی فٹ بال ٹیم کے ارکان تھے۔ یہ حملہ فوج پر اپنی نوعیت کا دسواں اور اسپورٹس ٹیم کے خلاف پہلا حملہ تھا۔[156]
  • 21 دسمبر 2007 کو عید الاضحی کے موقع پر، چارسدہ ضلع میں جامع مسجد شیر پاؤ میں ایک خود کش بم دھماکے میں آفتاب احمد شیر پاؤ پر ہونے والے حملہ میں کم از کم 57 افراد کو ہلاک اور 100 سے زائد کو زخمی ہو گئے۔ آفتاب شیرپاؤ اس دھماکے میں تو بال بال بچ گئے، لیکن ان کا چھوٹا بیٹا مصطفٰی خان شیر پاؤ زخمی ہو گیا۔[157]
  • 23 دسمبر 2007 کو مینگورہ کے قریب خودکش بمبار نے فوج کے قافلے کو نشانہ بنایا جب ایک فوجی اور چھ عام شہریوں سمیت کم از کم 7 افراد ہلاک اور 23 زخمی ہو گئے۔[158]
  • 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دو بار کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو فائرنگ اور خودکش بم دھماکے میں قتل کیا گیا، جس میں 20 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ یہ مقام اس وجہ سے بدنام ہے کیونکہ اکتوبر میں سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی قتل کیا گیا تھا۔[159]
  • 28 دسمبر 2007 کو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیش آنے والے تشدد میں پورے پاکستان میں چار پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 33 افراد ہلاک ہو گئے۔ صورت حال اتنی خراب ہو گئی کہ سندھ رینجرز کو دیکھتے ہی شوٹ کردینے کے سخت احکامات دیے گئے۔[160]
  • 28 دسمبر 2007 کو سڑک کے کنارے نصب بم دھماکے میں ضلع سوات میں مسلم لیگ ق کے سابق وزیر اسفند یار امیرزیب، جو والی سوات کے پوتے سمیت 9 افراد ہلاک ہو گئے۔[161]
  • 10 جنوری 2008 کو صوبائی دار الحکومت لاہور میں حکومت کے خلاف شیڈول وکیل کے احتجاج سے پہلے پولیس اہلکاروں کو جان بوجھ کر لاہور ہائیکورٹ کے باہر نشانہ بنایا گیا خودکش حملے میں 24 افراد ہلاک اور 73 زخمی ہو گئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد یہ حملہ لاہور میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔[162]
  • 14 جنوری 2008 کو قائد آباد میں بم پھٹنے سے 10 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے۔ بم ایک سائیکل پر نصب کیا گیا تھا اور یہ کراچی کے سبزی منڈی میں ہفتہ کے دن پھٹا۔[163]
  • 17 جنوری 2008 کو خیبر پختونخوا کے دار الحکومت پشاور کے علاقے کوہاٹی کے محلہ جنگھی میں ایک خودکش بمبار نے مرزا قاسم بیگ امام بارگاہ پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس میں سے 12 افراد اور 26 شدید زخمی ہوئے۔[164]
  • 4 فروری 2008 کو راولپنڈی میں جنرل ہیڈ کوارٹر کے قریب ایک خودکش بمبار نے اپنی موٹر سائیکل کو مسلح افواج کی بس سے ٹکرایا جب کہ کم از کم 10 افراد ہلاک اور 27 زخمی ہو گئے۔ جی ایچ کیو کے قریب راولپنڈی میں چوتھا اور یہ میڈیکل طلبہ پر اپنی نوعیت کا پہلا پاکستان آرمی پر گیارھواں حملہ ہے۔[165]
  • 9 فروری 2008 کو شمال مغربی پاکستان میں چارسدہ میں حزب اختلاف کی انتخابی ریلی میں زوردار دھماکے کے نتیجے میں 25 افراد ہلاک اور 35 زخمی ہو گئے۔ اس حملے میں ایک سیکولر جماعت اے این پی کو نشانہ بنایا گیا، جس میں سے ایک رہنما فضل الرحمن اتخیل کو 7 فروری کو کراچی میں قتل کیا گیا تھا جس نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے تھے۔ اس تازہ حملے کی ممکنہ سازش کرنے والا شمال مغربی پاکستان میں سرگرم اسلامیہ القاعدہ کا گٹھ جوڑ ہو سکتا ہے۔[166]
  • 11 فروری 2008 کو شمالی وزیرستان کے شہر میرانشاہ میں جلسہ عام پر خودکش حملے میں قومی اسمبلی کے امیدوار سمیت کم از کم 8 افراد ہلاک اور ایک درجن زخمی ہو گئے۔ یہ دو دن میں اے این پی کے انتخابی اجتماع پر دوسرا حملہ تھا۔[167]
  • 16 فروری 2008 کو شمال مغربی پاکستان کے کرم ایجنسی کے پاراچنار میں، مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی کے انتخابی اجلاس کے دوران میں، ایک خودکش بمبار نے اپنی بارود سے بھری گاڑی کو اڑا دیا۔ وزارت داخلہ پاکستان کے مطابق اس حملے میں کم از کم 47 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے۔ ایک سال کے اندر پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنوں پر یہ چوتھا حملہ تھا۔ ان میں سے دو نے پیپلز پارٹی کی سابق رہنما بینظیر بھٹو کو نشانہ بنایا تھا۔[168]
  • 18 فروری 2008 کو پاکستان میں عام انتخابات کے موقع پر پورے ملک میں انتخابات سے متعلقہ تشدد میں کم از کم 24 افراد ہلاک اور 200 کے قریب زخمی ہوئے۔ اسے آج ٹی وی نے رپورٹ کیا۔[169]
  • 22 فروری 2008 کو خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے مٹہ کے قریب سڑک کنارے نصب بم دھماکے میں شادی کی تقریب میں کم از کم 13 افراد ہلاک اور ایک درجن کے قریب زخمی ہو گئے۔فوج کے ترجمان نے بتایا کہ بم ریموٹ کنٹرول کے ذریعے پھٹا تھا۔ خواتین اور بچے بھی ان ہلاکتوں میں شامل ہیں۔[170]
  • 25 فروری 2008 کو راولپنڈی میں آرمی جنرل ہیڈ کوارٹر کے قریب مقامی وقت کے مطابق 2 بج کر 45 منٹ پرپاک فوج کے ٹاپ میڈیکل لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ، ڈرائیور اور سیکیورٹی گارڈ کے ہمراہ ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے میں کم از کم 5 دیگر راہگیر بھی ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے۔ جنرل بیگ نائن الیون حملوں کے بعد سے پاکستان میں مارے جانے والے اعلیٰ درجہ کے افسر تھے۔ یہ حملہ آرمی کے خلاف بارھواں اور جی ایچ کیو کے قریب پانچواں واقعات تھا[171]
  • 29 فروری 2008 کوخیبر پختون خواہ کے جنوبی حصے لکی مروت میں گھنٹوں قبل ہلاک ہونے والے ایک سینئر پولیس آفیسر کی آخری رسومات کے دوران میں جمعہ کے روز ضلع سوات کے علاقہ مینگورہ میں ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑالیا اور 38 افراد ہلاک اور 75 زخمی ہو گئے -پختونخوا۔ پولیس ڈی ایس پی تین دیگر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ اس وقت ہلاک ہوا جب ان کی گاڑی دن کے اوائل میں سڑک کے کنارے نصب ایک بم سے ٹکرا گئی تھی۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ یہ خودکش حملہ اس وقت ہوا جب ایک پولیس پارٹی شام 8 بجے کے لگ بھگ مینگورہ قصبے میں اسکول کے گراؤنڈ میں مقتول پولیس افسر کے اعزاز میں سلامی پیش کر رہی تھی۔[172]
  • 2 مارچ 2008 کو پشاور سے کچھ میل دور جنوب میں واقع قصبہ درہ آدم خیل میں قبائلی عمائدین اور مقامی عہدے داروں کی میٹنگ پر خود کش بمبار کے حملے میں کم از کم 42 افراد ہلاک اور 58 زخمی ہو گئے۔ جنوری کے اوائل میں درہ آدم خیل قصبہ پرتشدد جھڑپوں کا مرکز تھا جب عسکریت پسندوں نے پشاور اور کوہاٹ سے منسلک کوہاٹ سرنگ پر قبضہ کیا۔ سرنگ کو واپس لینے کے لیے سیکیورٹی فورسز کے حملے کے بعد، اس لڑائی کے نتیجے میں 13 فوجی اور 70 عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔[173]
  • 4 مارچ 2008 کو لاہور شہر میں واقع پاکستان نیوی وار کالج کے پارکنگ ایریا میں دو خودکش بمباروں نے خود کو دھماکے سے اڑالیا جس کے نتیجہ میں 8 افراد ہلاک اور 24 زخمی ہو گئے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے بعد اور بالخصوص لال مسجد کے محاصرے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان کے بحری ادارے کو عسکریت پسندوں نے نشانہ بنایا تھا (جنگی زون اور ایئر فورس کے باہر فوج کو کم از کم آٹھ بار نشانہ بنایا گیا تھا)۔ وار کالج پر یہ حملہ دو خود کش حملہ آوروں نے کیا تھا، پہلا حملہ دوسرا کے لیے راستہ صاف کرنا تھا۔ اور دوسرا نقصان کرنے والا۔[174]
  • 11 مارچ 2008 کو لاہور میں دو خودکش بم دھماکوں میں کم از کم 24 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے۔ ان حملوں میں سے ایک حملہ آور نے نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی عمارت کو نشانہ بنایا جس میں 21 پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ دوسرے حملہ آور نے ماڈل ٹاؤن کے پوش علاقے کو نشانہ بنایا، خود کش بمبار بلاول ہاؤس کے قریب پھٹا، جس کا تعلق پیپلز پارٹی کے رہنماؤں بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری سے تھا۔[175]
  • 15 مارچ 2008 کو ایک حملہ اس وقت ہوا جب اسلام آباد کے ایک ریستوران کے چاروں طرف دیوار کے اوپر بم پھینکا گیا۔ بم دھماکے میں زخمی ہونے والے 12 افراد میں سے چار امریکی ایف بی آئی کے ایجنٹ تھے۔ ایجنٹوں کو زخمی کرنے کے علاوہ، دھماکے میں ایک ترک خاتون ہلاک اور جبکہ پانچ امریکی، تین پاکستانی، برطانیہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص اور جاپان سے تعلق رکھنے والا ایک شخص زخمی ہوا۔[176]
  • 9 اپریل 2008 کو کراچی میں ہنگاموں کے نتیجے میں 9 افراد ہلاک اور 40 افراد زخمی ہو گئے۔ وکیلوں کے دو گرپوں نے سابق وزہر اعلیٰ پنجاب ارباب غلام رحیم اور سابق وفاقی وزیر شیر افگن نیازی کے ساتھ بدتمیزی کی۔[177]
  • 17 اپریل 2008 کو خیبر ایجنسی میں دو جنگجوئوں دھڑوں کے مابین جھڑپوں میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔[178]
  • 6 مئی 2008 کو بنوں میں ایک مشتبہ خودکش حملے میں کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے، اس بات کے اشارے کے ملے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ معاہدہ ٹوٹ سکتا ہے، جس کے لیے مارچ میں مذاکرات کا آغاز کیا گیا تھا۔[179]
  • 18 مئی 2008 کو مردان شہر میں آرمی کے پنجاب ریجمنٹل سنٹر مارکیٹ کو نشانہ بنانے والے ایک بم حملے میں چار فوجیوں سمیت کم از کم 13 افراد ہلاک اور 20 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ مردان میں 25 مارچ کو کار بم دھماکے کے بعد ایک ماہ میں یہ دوسرا حملہ تھا۔ اپریل میں تین ہلاک اور 26 افراد زخمی ہوئے۔ فوجی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے یہ حملہ فوج پر تیرھواں تھا۔[180]
  • 19 مئی 2008 کو باجوڑایجنسی کی تحصیل ماموند میں ایک مسجد کے باہر ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں کم از کم چار افراد ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔[181]
  • 26 مئی 2008 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں سات افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔[182]
  • 2 جون 2008 کو اسلام آباد میں ڈنمارک کے سفارتخانے پر کار بم سے حملہ ہوا جس میں 6 افراد ہلاک ہو گئے۔ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے ایک روز بعد ہی القاعدہ کے مصطفٰی ابو الزید کی ایک پوسٹ انٹرنیٹ پر نمودار ہوئی ہے۔[183]
  • 9 جون 2008 کو ٹی این ایس ایم کے رہنما صوفی محمد پیر کے روز پشاور میں مقامی طالبان کی جانب سے شروع کیے گئے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں بال بال بچ گئے، جس میں چار پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔[184]
  • 16 جون 2008 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ مسجد کے اندر بم دھماکے میں کم از کم چار افراد ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔[185]
  • 6 جولائی 2008 کو اسلام آباد کی لال مسجد پر آرمی کے حملے کی پہلی برسی کے موقع پر ریلی میں تعینات پولیس اہلکاروں کو نشانہ بناتے ہوئے ایک خودکش بمبار نے 19 افراد کو ہلاک کر دیا۔[186]
  • 7 جولائی 2008 کو کراچی کے دار الحکومت میں ایک مہلک خود کش حملے کے ایک روز بعد پاکستان میں ہنگامہ آرائی، بم دھماکوں کے ایک سلسلے میں کم از کم 37 افراد زخمی ہو گئے۔[187]
  • 2 اگست 2008 کو سوات مینگورہ میں سیکورٹی اہلکاروں کی گاڑی کے قریب ریموٹ کنٹرول بم پھٹنے سے 8 پولیس اور سیکیورٹی کارکن ہلاک ہو گئے۔[188]
  • 31 جولائی سے 4 اگست 2008 تک سکیورٹی فورسز اور طالبان نواز عسکریت پسندوں کے مابین ایک ہفتے کے دوران میں وادی سوات میں مجموعی طور پر 136 افراد مارے گئے۔ ہلاکتوں میں کم از کم 94 عسکریت پسند، 14 فوجی اور 28 کے لگ بھگ شہری شامل ہیں۔[189]
  • 9 اگست 2008 کو ضلع بونیر کے گاؤں کنگرگالئی میں جمعہ کی رات عسکریت پسندوں نے پولیس چوکی پر دھاوا بول دیا، آٹھ پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔[190]
  • 12 اگست 2008 کو منگل کے روز پشاور کے وسط کے قریب ایک بڑی سڑک پر ایک فوجی اڈے سے اہلکاروں کو لے جانے والی پاک فضائیہ کی بس کو نشانہ بنانے والے بم میں 13 افراد ہلاک اور 11 زخمی ہو گئے۔ طالبان فورسز نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ اس حملے کو افغانستان کی سرحد کے قریب عسکریت پسندوں کا مضبوط گڑھ باجوڑ ایجنسی میں پاکستانی فضائی حملوں کی انتقامی کارروائی کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ فضائیہ کے اہلکار تھے اور آٹھ دیگر مسافر سوار تھے۔[191]
  • 13 اگست 2008 کو یوم آزادی کی تقریبات کے موقع پر ایک مبینہ خودکش بمبار نے لاہور کے ایک پولیس اسٹیشن میں خود کو دھماکے سے اڑانے کے بعد دو پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد ہلاک اور 20 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ اسی دن، پنجگور میں دستی بم حملے اور بلوچستان کے خاران اور تربت قصبوں میں فائرنگ کے واقعات، حب اور اتل میں ہونے والے دھماکوں میں 6 افراد ہلاک اور 19 دیگر زخمی ہو گئے، ان میں سے چار پولیس اہلکار شامل تھے۔ جبکہ تحصیل باڑہ میں خطبہ دیتے ہوئے کالعدم تنظیم کے رہنما عمرو بل معروف واح انیل منکر حاجی نامدار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔حاجی نامدار اس سے قبل 1 مئی 2008 کو خودکش حملے میں بچ گئے تھے جس میں 17 افراد زخمی ہوئے تھے۔ [192]
  • 7 اگست سے 18 اگست 2008 تک کرم ایجنسی میں بنیادی طور پر طوری اور بنگش قبائل کے درمیان میں جھڑپیں ہوئیں۔ جس میں دیگر مقامی قبائل بھی شامل تھے، مسلسل 12 دن تک جاری رہنے والی لڑائی میں کم از کم 287 افراد ہلاک اور 373 زخمی ہوئے۔ اس کے بعد کے واقعات میں، طالبان کے حامی عسکریت پسند بھی ملوث تھے، جس کے بعد مقامی قبائلیوں نے حکومت سے عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کو کہا۔[193]
  • 19 اگست 2008 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے قریب خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑالیا جس سے 32 افراد ہلاک ہو گئے جن میں سات پولیس اہلکار اور ان میں سے دو صحت کے اہلکار شامل تھے۔ جبکہ 55 افراد زخمی ہوئے۔[194]
  • 21 اگست 2008 کو پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ چھاونی کے میں گیٹ کے سامنے دو خودکش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجہ میں کم از کم 70 افراد ہلاک اور 67 افراد زخمی ہو گئے۔ تحریک طالبان نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کر لی۔[195]
  • 21 اگست 2008 کو ضلع سوات میں ننگوالئی کے ایک بااثر شخص موسیٰ خان کو نماز کے بعد مسجد سے باہر جاتے ہی نامعلوم حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے محافظوں نے فائرنگ کردی لیکن حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس واقعے میں راہگیر اسلام گل نامی شخص بھی زخمی ہوا۔ حاجی موسیٰ خان گذشتہ دنوں بم اور بندوق کے حملے سے بچ گئے تھے۔ طالبان کے ترجمان مسلم خان نے اس ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے قبائلی بزرگ پر سیکیورٹی فورسز کا سرگرم حامی ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔[196]
  • 23 اگست 2008 کو خیبر پختونخوا کی وادی سوات کی تحصیل چارباغ میں ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی کو پولیس اسٹیشن میں گھسادیا جس کے نتیجہ میں 20 افراد ہلاک ہو گئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔[197]
  • 25 اگست 2008 کو خیبر پختونخوا میں وادی سوات میں ایک مقامی رکن صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) کے گھر کو نشانہ بنانے والے راکٹ حملے میں 10 افراد ہلاک ہو گئے۔ حملے کے نتیجے میں، اے این پی کے ایم پی اے وقار احمد کا بھائی اور کنبہ کے دیگر افراد ہلاک ہو گئے۔[198]
  • 26 اگست 2008 کو منگل کے روز اسلام آباد کے نواح میں ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں سڑک کے کنارے ایک ریسٹورنٹ میں بم دھماکے میں 8 افراد ہلاک اور 20 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔[199]
  • 28 اگست 2008 کو خیبر پختونخوا کے بنوں کے علاقے میں پولیس وین کو نشانہ بنانے والے بم حملے میں 9 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے۔[200]
  • 6 ستمبر 2008 کو پشاور سے 20 کلومیٹر دور واقع ایک نیم فوجی چوکی پر خودکش کار بم دھماکے میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور 70 زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ آصف علی زرداری کو صدر پاکستان اور یوم دفاع کے موقع پر منتخب کرنے کے لیے ووٹنگ کے دوران میں ہوا۔[201]
  • 10 ستمبر 2008 کو خیبر پختونخوا کے شمالی حصے، ضلع لوئر دیر کے مسکانئی کے علاقے میں ایک مسجد میں دستی بم اور بندوق کے حملے میں 25 نمازی ہلاک اور 50 زخمی ہو گئے۔[202]
  • 19 ستمبر 2008 کو کوئٹہ میں اسلامی مذہبی اسکول میں ایک بم پھٹنے سے پانچ افراد ہلاک اور کم از کم آٹھ زخمی ہو گئے۔ اس اسکول کا انعقاد مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام نے کیا تھا۔[203]
  • 20 ستمبر 2008 کو اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل کے باہر ایک زبردست ٹرک بم دھماکا ہوا، جس میں 57 افراد ہلاک اور 266 زخمی ہو گئے۔ یہ خودکش حملہ کسی ایک فرد کے ذریعہ کیا گیا تھا جس میں 20 فٹ (6.1 میٹر) گہرائی اور 50 فٹ (15 میٹر) چوڑا گڑھا بن گیا تھا، یہ حملہ افطار کے وقت ہوا جب مقامی اور غیر ملکی باشندے رمضان کی دعوت کے لیے اکٹھے ہوئے تھے، یہ حملہ اس لیے اہم تھا کیونکہ صدر کے پہلے پارلیمانی خطاب کے بعد قریبی وزرائے اعظم سیکرٹریٹ میں تمام اعلیٰ سیاسی، سفارتی اور فوجی بھی کھانا کھا رہے تھے[204]
  • 22 ستمبر 2008 کو ضلع سوات میں ایک چیک پوسٹ پر خودکش کار بم حملے میں 9 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔[205]
  • 26 ستمبر2008 کو بہاولپور شہر کے قریب ٹرین پر بم حملے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور پندرہ افراد زخمی ہو گئے۔ بم جسے ریلوے ٹریک پر رکھا گیا تھا پھٹ گیا جس سے ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ کسی نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔[206]
  • 2 اکتوبر 2008 کو چارسدہ میں اے این پی کے رہنما اسفند یار ولی خان کے گھر کو ایک خودکش حملہ آور نے نشانہ بنایا۔ اسفند یار ولی اس حملے میں بچ گئے، کیوں کہ ولی خان تک پہنچنے سے پہلے اس کے محافظ نے خودکش حملہ آور کو سر میں گولی مار دی۔ گارڈ بعد میں اس وقت مارا گیا جب حملہ آور زمین پر ہوتے ہوئے بم پھاڑنے میں کامیاب ہوا۔ اے این پی پر یہ چوتھا حملہ تھا۔[207]
  • 6 اکتوبر 2008 کو پنجاب کے شہر بھکر میں ایک خودکش حملہ آور 20 افراد کو ہلاک اور 60 کو زخمی کرنے میں کامیاب ہو گیا، جب اس نے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے راشد اکبر نوانی کے سیاسی اجتماع کو نشانہ بنایا۔ اگرچہ حملے میں زندہ بچ جانے کے بعد، نوانی زخمی ہو گئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد سے یہ مسلم لیگ (ن) پر پہلا حملہ تھا۔ یہ فرقہ وارانہ حملہ تھا کیونکہ مسٹر نوانی شیعہ تھے اور اجتماع میں پارٹی کے زیادہ تر کارکن اقلیت شیعہ مسلک کے تھے۔[208]
  • 9 اکتوبر 2008 کو اسلام آباد کے ایک اہم پولیس ہیڈ کوارٹر پر خودکش بم حملے میں کم از کم 8 افراد ہلاک اور کم سے کم 8 زخمی ہو گئے۔ یہ علاقہ دار الحکومت کا مرکزی پولیس کمپلیکس تھا، جس میں پولیس افسران کے لیے تربیت اور رہائشی سہولیات موجود تھیں۔ ہزاروں پولیس اہلکار مرکز میں مقیم تھے۔[209]

ایک اور واقعہ میں خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا میں اس وقت گیارہ افراد ہلاک ہو گئے جب پولیس قیدیوں کو لے جانے والی پولیس وین کے قریب سڑک کنارے نصب بم پھٹا۔ جاں بحق ہونے والی بس میں چار اسکول کے بچے بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔

  • 10 1کتوبر 2008 کو 600 مقامی قبائلی رہنماؤں کے ایک اجلاس میں جس میں طالبان کو بے دخل کرنے کے لیے ملیشیاء بنانے کے لیے تبادلہ خیال جاری تھا میں ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی گھسا دی اور بم پھاڑ دیا جس کے نتیجہ میں کم از کم 110 افراد ہلاک اور 200 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔[210]
  • 13 اکتوبر 2008 کو سیکولر سیاسی رہنما کی گاڑی کے قریب ریموٹ کنٹرول بم دھماکا ہوا، سیکولر سیاسی رہنما سمیت چار افراد سمیت زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد سے قانون سازوں اور سرکاری اہلکاروں کے خلاف حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اور عوامی نیشنل پارٹی کا پر اس مہینے میں دوسرا حملہ تھا۔ اس حملے نے خیبر پختون خواہ میں 18:30 بجے بظاہر پشتون سیکولر اے این پی کی ممبر شمین خان کو نشانہ بنانا تھا۔[211]
  • 16 اکتوبر 2008 کو ایک خودکش بمبار نے وادی سوات کے مزاحمتی علاقے میں ایک بارود سے بھری گاڑی کو پولیس اسٹیشن میں گھسادیا جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور عمارت کو تباہ ہو گئی۔[212]
  • 19 اکتوبر 2008 کو ایک علیحدگی پسند گروپ، بلوچ جمہوریہ آرمی، نے شمال مغربی صوبہ بلوچستان میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی، جس میں کم از کم تین افراد ہلاک اور چھ زخمی ہوئے۔ دھماکا ضلع ڈیرہ بگٹی کے بازار میں ہوا اور ریموٹ کنٹرول بم موٹرسائیکل میں نصب تھا۔[213]
  • 26 اکتوبر 2008 کو مہمند ایجنسی کے گھلانئی کے قریب اتوار کے روز ایک خود کش حملے میں کم از کم 11 افراد، جن میں سے سات فرنٹیئر کور کے اہلکار اور تین خاصدار شامل تھے، ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔[214]
  • 27 اکتوبر 2008 کو کوئٹہ میں ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کے قریب ہوئے بم دھماکے میں دو افراد ہلاک اور 12 زخمی ہو گئے، ان میں سے کچھ شدید زخمی ہوئے۔[215]
  • 31 اکتوبر 2008 کو شمال مغربی شہر مردان میں پولیس اہلکار کو نشانہ بنانے والے ایک خودکش بم دھماکے میں 8 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے۔[216]
  • 2 نومبر 2008 کو جنوبی وزیرستان کے مرکزی قصبے وانا کے قریب سیکیورٹی چوکی پر خودکش بم حملے میں 8 پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے۔[217]
  • 4 نومبر 2008 کو ضلع ہنگو میں منگل کی صبح سیکیورٹی فورس کی چوکی پر خودکش حملے میں 3 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 7 افراد ہلاک اور 6 زخمی ہو گئے۔[218]
  • 6 نومبر 2008 کو جمعرات کے روز باجوڑایجنسی میں سالارزئی جرگہ میں خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس سے 22 قبائلی ہلاک اور 45 زخمی ہو گئے۔ دھماکے میں ایجنسی ہیڈکوارٹر خار سے 40 کلومیٹر شمال مشرق میں بٹملانی میں لشکر (رضاکار ملیشیا) کو نشانہ بنایا گیا۔[219]
  • 11 نومبر 2008 کو پشاور کے ایک ہجوم سے بھرے قیوم اسٹیڈیم میں منگل کے روز ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس میں چار افراد ہلاک اور 13 زخمی ہو گئے۔ خیبر پختونخوا کے گورنر اویس احمد غنی ابھی پنڈال سے ہی نکلے تھے اور سینئر صوبائی وزیر بشیر بلور اپنے راستے سے باہر جا رہے تھے۔۔ بشیر بلور، جو ظاہر ہدف تھے، نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں ان کے دو محافظ بھی شامل ہیں اور تین زخمی ہوئے ہیں۔[220]
  • 12 نومبر 2008 کو چارسدہ ضلع میں بدھ کے روز ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری بس کو اسکول کے گیٹ سے ٹکرا دیا جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ جوابی فائرنگ میں 2 افراد ہلاک ہو گئے۔ فوجیوں اور عام شہریوں سمیت پندرہ افراد زخمی ہوئے۔[221]
  • 17 نومبر 2008 کو سوات خواجہ خیلہ کے علاقے میں ایک خودکش بمبار نے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی کو سیکیورٹی کی ایک چوکی سے ٹکرا دی۔[222]
  • 19 نومبر 2008 کو فوج کے ایلیٹ کمانڈو فورس اسپیشل سروس گروپ کے سابق سربراہ، میجر جنرل (ر) امیر فیصل علوی اور ان کے ڈرائیور کو بدھ کی صبح اسلام آباد کے قریب گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ امیر فیصل علوی نے 2004 میں جنوبی وزیرستان کے انگور اڈا میں شدت پسندوں پر پہلے بڑے حملے کے دوران میں ایس ایس جی کو کمانڈ کیا تھا، وہ کورال پولیس کی حدود میں پی ڈبلیو ڈی ہاؤسنگ سوسائٹی کے قریب اسلام آباد ہائی وے پر ڈرائیونگ کے دوران میں اپنے گھر کے قریب ہلاک کردیے گئے۔ یہ حملہ جنگی زون سے باہر کی فوج پر پندرھواں حملہ تھا اور آرمی جی ایچ کیو کے مقام راولپنڈی کے آس پاس میں چھٹا حملہ تھا۔[223]
  • 20 نومبر 2008 کو باجوڑ ایجنسی کی تحصیل ماموند کی ایک مسجد میں جمعرات کے روز ایک خودکش بمبار نے کم از کم نو افراد کو ہلاک اور چار کو زخمی کر دیا۔[224]
  • 21 نومبر 2008 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں جمعہ کی صبح یہاں بس اسٹینڈ کے قریب مولوی کی آخری رسومات کے دوران میں ہونے والے دھماکے میں 7 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہو گئے۔[225]
  • 22 نومبر 2008 کو ضلع ہنگو کے ٹل کے علاقے ٹنڈارو میں ہفتے کے روز ایک خودکش بمبار نے ایک مسجد میں خود کو دھماکے سے اڑالیا جس سے 6 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے۔ جبکہ ہفتے کے روز دیر گئے لاہور کے الہامرا کلچرل کمپلیکس کے قریب تین دھماکوں کے سلسلے میں ایک نوعمر سمیت کم از کم تین افراد زخمی ہو گئے، جہاں بین الاقوامی ورلڈ پرفارمنگ آرٹس فیسٹول جاری تھا۔[226]
  • 28 نومبر 2008 کو جمعہ کے روز بنوں کے علاقے ڈومیل کے علاقے پشاور بنوں روڈ پر ایک خودکش بمبار نے اپنے دھماکا خیز مواد سے بھری کوچ کو پولیس کی گاڑی سے ٹکرایا جس سے چار پولیس سمیت 9 افراد ہلاک اور 16 زخمی ہو گئے۔[227]
  • یکم دسمبر 2008 کو پیر کے روز مینگورہ سے تقریباْ seven سات کلومیٹر شمال مشرق میں سنگاٹا سیکیورٹی پوسٹ کے قریب خودکش بمبار نے بارود سے بھری ٹرک کو اڑا دیا جب دس افراد ہلاک اور 49 زخمی ہو گئے۔[228]
  • 5 دسمبر 2008 کو شمال مغربی پاکستان کے پر ہجوم بازاروں میں دو بم پھٹنے سے کم از کم 27 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ پشاور کے قلب میں ہوئے ایک دھماکے میں 21 افراد ہلاک اور 5 فٹ گہرائی میں (1.5 میٹر) گڑھا پیدا ہوا۔ اورکزئی کے قبائلی ضلع اورکزئی کے ایک بازار میں کار بم دھماکے میں 6 افراد ہلاک ہو گئے۔ کسی نے بھی فوری طور پر دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔[229]
  • 28 دسمبر 2008 کو اتوار کے روز ضلع بونیر کے ایک سرکاری اسکول میں ایک پولنگ اسٹیشن کے قریب کار بم حملے میں کم از کم 36 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس دھماکے میں 16 افراد زخمی ہوئے۔یہ دھماکا صمنی الیکشن میں پولنگ اسٹیشن پر ہوا۔[230]
  • 4 جنوری 2009 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ملتان روڈ پر واقع ایک امام بارگاہ کے قریب گورنمنٹ پولی ٹیکنک کالج کے سامنے خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑادیا جس سے کم از کم سات افراد ہلاک ہو گئے، جن میں تین پولیس اہلکار اور دو صحافی تھے۔ تقریباْ 25 افراد زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار تھے۔[231]
  • 10 جنوری 2009 کو ہنگو میں حریف فرقوں کے مابین زبردست فائرنگ کا تبادلہ ہفتہ کے روز بھی جاری رہا جس میں خونریزی روکنے کے لیے ابتدائی جنگ بندی کی کوشش کی گئی تھی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ دو روزہ لڑائی میں اہل سنت والجماعت کے مقامی باب کے ڈپٹی چیئرمین مفتی رستم سمیت 26 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔[232]
  • 26 جنوری 2009 کو پولیس کا کہنا ہے کہ شمال مغربی پاکستان میں ایک بم دھماکے میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ یہ بم، ایک موٹرسائیکل سے منسلک تھا، دھماکا ڈیرہ اسماعیل خان کے قصبے میں ایک مصروف مین روڈ پر کیا گیا۔[233] جبکہ ایک اور واقعے میں، جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین حسین علی یوسفی کو لشکر جھنگوی نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔[234]
  • 3 فروری 2009 کو منگل کی شام ڈیرہ اسماعیل خان ضلع کے محلہ جوگین والا میں سنی مسجد پر دستی بم کے حملے میں ایک شخص ہلاک اور 18 زخمی ہو گئے۔[235]
  • 5 فروری 2009 کو جمعرات کے روز ڈیرہ غازیخان مسجد کے باہر شیعہ نمازیوں کے ہجوم میں ایک مشتبہ خودکش بم دھماکے میں 32 افراد ہلاک ہو گئے۔ پولیس نے بتایا کہ اس دھماکے میں ایک مذہبی اجتماع سے کچھ دیر قبل، اندھیرے کے بعد الحسینیہ مسجد میں داخل ہونے والے درجنوں افراد کو نشانہ بنایا گیا۔[236]
  • 7 فروری 2009 کو خیبر پختون خواہ کے قریب پنجاب کے ضلع میانوالی میں ایک چوکی پر حملے میں کم از کم سات اہلکار ہلاک ہو گئے۔[237]
  • 11 فروری 2009 کو عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی قانون ساز عالم زیب خان بدھ کے روز ریموٹ کنٹرول دھماکے میں ہلاک اور 8 افراد زخمی ہو گئے۔ یہ بم پشاور میں دلازک روڈ پر مقتول ایم پی اے کی رہائش گاہ کے قریب کھڑی موٹرسائیکل پر نصب تھا۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں یہ اے این پی پر چھٹا حملہ تھا۔[238]
  • 17 فروری 2009 کو شمال مغربی پاکستان میں ایک سرکاری اہلکار کے گھر کے باہر پھٹنے والے کار بم دھماکے میں کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے۔ بمبار نے پشاور شہر کے قریب نواحی علاقے بایزید خیل میں طالبان مخالف میئر کو نشانہ بنایا۔ وہ بچ گیا لیکن متعدد افراد کو چوٹ پہنچی۔[239]
  • 20 فروری 2009 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں جمعہ کے روز کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا اور فوج نے ہنگاموں کو روکا، قبل ازیں جنوبی ڈیرہ اسماعیل خان ضلع میں ایک خودکش بمبار نے کم از کم 30 شیعہوں کو ہلاک اور 157 کو زخمی کر دیا تھا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ شیعہ رہنما شیر زمان کی آخری رسومات پر دھماکے کے بعد جب فائرنگ کی گئی تو پولیس ’بھاگ گئی‘ شیعہ رہنما شیر زمان کو ایک دن پہلے ہی فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔[240]
  • 2 مارچ 2009 کو پیر کے روز بلوچستان کے ضلع پشین میں لڑکیوں کے ایک مذہبی اسکول میں خودکش بمبار نے پانچ افراد کو ہلاک اور 12 کو زخمی کر دیا۔[241]
  • 3 مارچ 2009 کو قذافی اسٹیڈیم کے قریب، لاہور میں اسٹیڈیم کے قریب، دو بسوں میں سری لنکن کرکٹرز اور عہدے داروں کو لے جانے والے قافلے پر 12 بندوق برداروں نے فائرنگ کردی۔ کرکٹرز دوسرے ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن پاکستانی کرکٹ ٹیم کے خلاف کھیلنے جا رہے تھے۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم کے چھ ارکان زخمی ہوئے۔ چھ پاکستانی پولیس اہلکار اور دو عام شہری ہلاک ہو گئے۔[242]
  • 7 مارچ 2009 کو پشاور میں بم سے بھری گاڑی پھٹ گئی جب پولیس نے لاش کو کھینچنے کی کوشش کی تو آٹھ افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں سات پولیس اہلکار تھے جبکہ دوسرا راہگیر تھا۔ ایک اور واقعے میں، درہ آدم خیل قصبے میں سڑک کنارے نصب بم دھماکے میں تین شہری ہلاک اور چار فوجی زخمی ہو گئے۔[243]
  • 11 مارچ 2009 کو خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر بلور قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے، جس کے نتیجے میں بدھ کے روز پشاور کی نمک منڈی میں دو مشتبہ خودکش حملہ آوروں سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے۔ فائرنگ، دستی بم حملے اور خودکش دھماکے میں ایک نوجوان لڑکی سمیت چار افراد جن کی گذشتہ اتوار کو شادی ہوئی تھی، شدید زخمی ہو گئے تھے۔[244]
  • 16 مارچ 2009 کو پیرواڈھائی کے مقام پر راولپنڈی کے مصروف ترین بس اسٹینڈ کے قریب پیر کے روز خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑالیا جس کے نتیجے میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہو گئے۔[245]
  • 18 مارچ 2009 کو منگل کی رات ضلع لوئر دیر کے ضلع چکدرہ میں مالاکنڈ یونیورسٹی کے داخلی دروازے پر 100 سے زائد نامعلوم مسلح افراد نے پولیس کی گاڑی پر حملہ کر کے 3 پولیس اہلکاروں سمیت 5 افراد کو ہلاک اور چار کو زخمی کر دیا۔[246]
  • 23 مارچ 2009 کو پیر کو اسلام آباد میں پولیس اسپیشل برانچ کے دفتر کے باہر خودکش بم دھماکے میں ایک سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔[247]
  • 26 مارچ 2009 کو جمعرات کے روز جنوبی وزیرستان کے جندولہ کے قریب تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کے مخالفین کو نشانہ بنانے والے ایک ریستوراں میں خودکش حملے میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے۔[248]
  • 27 مارچ 2009 کو خیبر ایجنسی کے علاقہ جمرود میں پشاور طورخم شاہراہ پر جمعہ کے اجتماع کے دوران میں ایک مسجد پر بظاہر خودکش حملے میں 76 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے۔ تاہم، انٹیلیجنس ذرائع نے مرنے والوں کی تعداد 86 بتائی لیکن پولیٹیکل انتظامیہ کے اہلکار ہلاکتوں کی تعداد 50 بتائی۔[249]
  • 30 مارچ 2009 کو پیر کو بھارت کی سرحد کے قریب لاہور میں واقع مناواں پولیس ٹریننگ اسکول پر پیر کے روز 10 دہشت گردوں نے بندوقوں اور دستی بموں سے حملہ کیا جس میں کم از کم 8 پولیس بھرتی اہلکار اور ایک شہری ہلاک ہو گئے۔ سیکیورٹی فورسز نے آٹھ گھنٹے سے زیادہ جاری رہنے والے آپریشن میں اسکول پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔ تقریباً 93 کیڈٹ اور شہری زخمی بھی ہوئے۔[250]
  • 4 اپریل 2009 کو اسلام آباد کے مارگلہ روڈ پر ہفتے کے روز ایک خودکش بمبار نے فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے کیمپ پر حملہ کیا، حملہ آور کے علاوہ کم از کم آٹھ ایف سی اہلکار اور ایک شہری ہلاک اور 12 زخمی ہو گئے۔[251]
  • 5 اپریل 2009 کو اتوار کے روز چکوال میں ایک امام بارگاہ میں شیعہ مذہبی اجتماع میں خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 22 افراد ہلاک اور 60 زخمی ہو گئے۔ حملہ آور نے شیعہ مسجد کے گیٹ پر حملہ کیا جہاں قریب 1200 افراد مذہبی اجتماع میں شریک تھے۔[252]
  • 6 اپریل 2009 کو پولیس کو پیر کے روز ضلع مانسہرا کے شنکیاری علاقے میں تین مقامی امدادی کارکنوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ملیں۔[253]
  • 15 اپریل 2009 کو شمال مغربی پاکستان میں ایک خود کش کار بمبار نے سیکیورٹی پوسٹ پر حملہ کیا، جس میں کم از کم 18 افراد ہلاک ہو گئے، ان میں سے 9 پولیس اور پانچ دیگر زخمی ہو گئے۔ حملہ آور نے اپنا دھماکا خیز مواد اس وقت پھاڑا جب وہ پشاور شہر کے نواحی قصبے چارسدہ میں ایک چوکی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا۔[254]
  • 18 اپریل 2009 کو ایک خودکش حملہ آور نے ہفتے کے روز شمال مغربی پاکستان کے شہر ہنگو کے دوآبہ کے علاقے میں ایک چوکی پر کار بم دھماکا کیا، جس میں 5 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت کم از کم 22 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے۔[255]
  • 26 اپریل 2009 کو شمال مغربی پاکستان میں ایک کھلونا بم سے کھیلنے کی غلطی سے ہونے والے بم دھماکا میں 12 بچے ہلاک ہو گئے۔ بچوں کی موت بم کے پھٹنے کے بعد ہوئی، جو فٹ بال کی طرح ہی تھا، ہفتہ کے روز لوئر دیر ضلع میں پھٹا۔[256]
  • 29 اپریل 2009 کو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ نے شہر کے مختلف علاقوں میں نامعلوم مسلح افراد نے 34 افراد کی جانیں لے لیں اور 40 کو زخمی کر دیا۔ 28 اپریل تک ایک ماہ تک جاری رہنے والے تشدد کے واقعات میں، پولیس ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ہلاکتوں کے مختلف واقعات میں 16 افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا اور 54 زخمی ہوئے تھے۔ اعدادوشمار نے مزید بتایا کہ مجموعی طور پر لوگوں میں سے 43 افراد کا تعلق پختون برادری سے تھا جب کہ سات افراد اردو بولنے والے تھے۔[257]
  • 5 مئی 2009 کو منگل کی صبح پشاور چھاؤنی سے 12 کلومیٹر مغرب میں واقع پشاور بارہ روڈ پر ایک چوکی کے قریب بارود سے بھری کار ایک پک اپ سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجے میں 7 افراد، دو بچے اور ان میں فرنٹیئر کور کا ایک فوجی ہلاک اور 48 زخمی ہو گئے۔[258]
  • 11 مئی 2009 کو پیر کے روز دارا آدم خیل کے نواح میں ایک ایف سی چوکی کے قریب ایک خودکش بمبار نے اپنی بارود سے بھری گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا، جس میں آٹھ شہری اور دو سکیورٹی اہلکار ہلاک اور 27 دیگر افراد زخمی ہوئے۔[259]
  • 14 مئی 2009 کو شہر میں تین دستی بم پھٹنے سے 9 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔[260]
  • 16 مئی 2009 کو ہفتہ کے روز دو مسلسل بم دھماکوں سے پشاور لرز اٹھا، جس میں 13 افراد ہلاک اور 34 دیگر زخمی ہو گئے۔ بارسکو کے علاقے میں ایک طاقتور کار بم دھماکے میں 12 افراد ہلاک اور 31 دیگر زخمی ہو گئے، جن میں اسکول کے بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، جبکہ پشاور صدر کے گورا بازار میں ایک کم شدت والے آلے سے ایک نابالغ بچی جاں بحق اور تین زخمی ہو گئے۔[261]
  • 21 مئی 2009 کو جمعرات کی شام ٹانک کے جنڈولا علاقے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے قلعے کے قریب خودکش حملے میں کم سے کم 9 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے۔[262]
  • 22 مئی 2009 کو پشاور کے سنیما روڈ کے علاقے میں جمعہ کی شام ایک سنیما کے باہر طاقتور کار بم پھٹنے سے 10 افراد ہلاک اور 75 زخمی ہو گئے۔[263]
  • 27 مئی 2009 کو خودکش حملہ آوروں نے دار الحکومت سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) اور انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے دفتروں کے قریب بدھ کے روز 100 کلوگرام بارود سے بھری ہوئی ایک گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں کم از کم 27 افراد ہلاک اور 326 زخمی ہوئے، ریسکیو 15 پولیس سروس کی دو منزلہ عمارت کو تباہ کرنے کے علاوہ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد آئی ایس آئی پر یہ دوسرا حملہ تھا۔[264]
  • 28 مئی 2009 کو جمعرات کے روز دھماکوں کے یکے بعد دیگرے خیبر پختون خواہ میں ہلاکتیں ہوگئیں، پانچ پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد ہلاک اور 90 سے زائد زخمی ہو گئے۔ پشاور میں تین دھماکے ہوئے، ان میں سے ایک خودکش حملہ آور نے پولیس چوکی کو نشانہ بنایا اور ایک خودکش حملہ آور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکیورٹی چوکی پر حملہ کیا۔[265]
  • 5 جون 2009 کو اپر دیر ضلع کے حیاگئی شرقئی گاؤں میں ایک خودکش بمبار نے مسجد کے باہر خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب جمعہ کی نماز کے دوران میں 40 افراد ہلاک اور 70 زخمی ہو گئے۔[266]
  • 6 جون 2009 کو ہفتہ کے روز اسلام آباد میں پولیس ہیلپ لائن یونٹ، ریسکیو 15 کے خلاف ایک نوجوان کے خودکش حملے کے بعد دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ کم از کم چار دیگر پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔[267]
  • 8 جون 2009 کو کراچی میں سیاسی دھڑوں کے مابین دشمنیوں سے پھوٹ پڑنے والی تشدد کی لہر بدستور پھیل رہی، کیونکہ پیر کو مزید 12 افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو گئے۔ اس طرح، جون کے پہلے ہفتے کے دوران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے سیاسی کارکنوں کی تعداد 35 ہو گئی۔ بیشتر متاثرین ایم کیو ایم (الطاف) اور ایم کیو ایم (حققی) دھڑوں کی خونی دشمنی کا شکار ہو گئے تھے۔[268]
  • 9 جون 2009 کو پشاور میں منگل کے روز ایک بڑے اسٹار پرل کانٹینینٹل ہوٹل میں ٹرک میں موجود بم دھماکے سے پھٹ گیا جس کے نتیجے میں 11 افراد جاں بحق اور 60 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ حملہ آور رات تقریباً 30۔10 بجے دو گاڑیوں پر مشتمل کمپاؤنڈ میں داخل ہوئے اور اہک بوتل سے سیکیورٹی گارڈز پر اسپرے کیا۔ ہوٹل کا گیٹ اور دوسرے گارڈ کو کو ہوٹل کی پارکنگ میں اڑا دیا گیا۔ بعد میں ہلاکتوں کی تعداد 17 ہو گئی۔[269]
  • 12 جون 2009 کو گڑھی شاہو کے علاقے علامہ اقبال روڈ پر جامعہ نعیمیہ مدرسہ میں خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے چھ افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہونے کے ساتھ، ایک معروف سنی بریلوی عالم دین سرفراز احمد نعیمی کو قتل کر دیا گیا نماز جمعہ کے فورا بعد ہی لاہور۔ نوشہرہ میں، گرینڈ ٹرنک روڈ پر واقع کنٹونمنٹ کے علاقے میں نماز جمعہ کے دوران میں ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی کو مسجد میں گھسادیا جب کہ پانچ نمازی ہلاک اور 105 دیگر زخمی ہو گئے۔ نوشہرہ حملہ تنازع زون سے باہر فوج پر ایسا سولہواں حملہ تھا اور نوشہرہ میں دوسرا حملہ۔ بعد ازاں تحریک طالبان پاکستان نے جمعہ کے روز پشاور، نوشہرہ اور لاہور میں تین خود کش حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلد ہی اس طرح کے اور حملے بھی کیے جائیں گے۔[270]
  • 14 جون 2009 کو اتوار کے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں مصروف بازار میں زوردار دھماکے کے نتیجے میں نو افراد ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔[271]
  • 26 جون 2009 کو آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) کے مظفر آباد میں آزاد جموں وکشمیر میں اس طرح کے پہلے حملے میں جمعہ کے روز ایک خودکش بمبار نے دو فوجیوں کو ہلاک کر دیا جب اس نے اپنے آپ کو ایک فوجی گاڑی کے قریب اڑا لیا۔[272]

دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے 2 تجاویز تحریر کریں

حوالہ جات

ترمیم
  1. "دہشت گردی کیا ہے؟"۔ Dawn News Television۔ 21 نومبر، 2013 
  2. سورۃ مائدہ آیت 32
  3. سورۃ منافقون سورۃ نمبر 63 پارہ نمبر 28
  4. سورۃ بقرۃ آیات نمبر 11؛12
  5. سورۃ تکویر آیت نمبر8، آیت نمبر9
  6. سورۃ النحل آیات نمبر 58: 59
  7. بخاري، الصحيح، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم : لا ترجعوا بعدي کفارا يضرب بعضکم رقاب بعض، 6: 2594، رقم: 6668
  8. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب الخطبة أيام مني، 2: 620، رقم: 1654، بخاري، کتاب العلم، باب قول النبي صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم : رب مبلغ أوعی من سامع، 1: 37، رقم: 67، مسلم، الصحيح، کتاب القسامة والمحاربين والقصاص والديات، باب تغليظ تحريم الدماء والأعراض والأموال، 3: 1305, 1306، رقم: 1679
  9. بخاری، الصحيح، کتاب الفتن، باب ظهور الفتن، 6: 2590، الرقم: 6652
  10. متی باب نمبر 10 آیت 34: 36
  11. کتاب استشناء: باب نمبر 20 آیت نمبر 10
  12. باب نمبر 13 کی آیت نمبر پندرہ سولہ
  13. سورۃ بقرہ آیت 256
  14. سورۃ کافرون
  15. Aaron Ulrich (Editor); Edward FeuerHerd (Producer & Director)۔ (2005 & 2006) (Box set, Color, Dolby, DVD-Video, Full Screen, NTSC)۔ Heart of Darkness: The Vietnam War Chronicles 1945–1975. [Documentary]۔ Koch Vision. Event occurs at 321 minutes. ISBN 1-4172-2920-9.
  16. Dunnigan, James & Nofi, Albert: Dirty Little Secrets of the Vietnam War: Military Information You're Not Supposed to Know. St. Martin's Press, 2000, page 284. ISBN 0-312-25282-X
  17. ب پ ت Aaron Ulrich (Editor); Edward FeuerHerd (Producer & Director)۔ (2005 & 2006) (Box set, Color, Dolby, DVD-Video, Full Screen, NTSC)۔ Heart of Darkness: The Vietnam War Chronicles 1945–1975. [Documentary]۔ Koch Vision. Event occurs at 321 minutes. ISBN 1-4172-2920-9.
  18. Deutsche Welle (www.dw.com)۔ "دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک | DW | 13.12.2017"۔ DW.COM 
  19. Deutsche Welle (www.dw.com)۔ "دہشت گردی سے متعلق اقوام متحدہ کی لسٹ، 139 نام پاکستان سے | DW | 04.04.2018"۔ DW.COM 
  20. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/wrjp255a.html
  21. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/19991031a.html
  22. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/20010911a.html
  23. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/20010911a.html
  24. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/20010911a.html
  25. "آرکائیو کاپی"۔ 03 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2019 
  26. "آرکائیو کاپی"۔ 03 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2019 
  27. "آرکائیو کاپی"۔ 19 جون 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جولا‎ئی 2019 
  28. "آرکائیو کاپی"۔ 17 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جولا‎ئی 2019 
  29. "آرکائیو کاپی"۔ 15 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولا‎ئی 2019 
  30. "آرکائیو کاپی"۔ 15 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولا‎ئی 2019 
  31. "آرکائیو کاپی"۔ 19 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولا‎ئی 2019 
  32. "آرکائیو کاپی"۔ 15 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولا‎ئی 2019 
  33. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/20120805a.html
  34. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/20130415a.html
  35. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/20140413a.html
  36. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/20140608a.html
  37. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/20141220a.html
  38. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/20150617a.html
  39. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/20151127a.html
  40. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/20151202a.html
  41. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/incidents/20171031a.html
  42. http://www.johnstonsarchive.net/terrorism/wrjp255a.html
  43. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2001
  44. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2001#cite note-1
  45. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2002
  46. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2002
  47. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2002
  48. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2002
  49. en:2002 Karachi bus bombing
  50. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2002#cite note-6
  51. http://news.bbc.co.uk/2/hi/world/south_asia/2126786.stm
  52. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/2173184.stm
  53. https://www.dawn.com/news/52044/three-nurses-killed-in-taxila-chapel-attack
  54. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2002#cite note-10
  55. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/2332779.stm
  56. https://www.cbc.ca/news/world/bus-explosion-in-pakistan-kills-two-1.331248
  57. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/2544935.stm
  58. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/2605839.stm
  59. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2003#cite note-1
  60. https://www.dawn.com/news/86983/two-injured-in-faisalabad-mosque-attack
  61. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/2973288.stm
  62. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2003#cite note-4
  63. https://www.dawn.com/news/118945/azam-tariq-gunned-down-in-islamabad
  64. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/3318449.stm
  65. https://www.cbc.ca/news/world/musharraf-survives-second-assassination-attempt-in-two-weeks-1.359952
  66. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2004#cite note-1
  67. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/3524851.stm
  68. en:2004 Quetta Ashura massacre
  69. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/3679533.stm
  70. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/3693023.stm
  71. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2004#cite note-5
  72. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2004#cite note-6
  73. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2004#cite note-6
  74. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2004#cite note-6
  75. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2004
  76. https://www.cbc.ca/news/world/pakistan-s-pm-designate-survives-assassination-attempt-1.514614
  77. "آرکائیو کاپی"۔ 01 مئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2019 
  78. https://www.dawn.com/news/367007/twin-blasts-leave-8-dead-in-karachi
  79. https://www.tribuneindia.com/2004/20040901/world.htm#4
  80. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2004#cite note-11
  81. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/3706506.stm
  82. en:2004 Multan bombing
  83. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/3731418.stm
  84. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/3731418.stm
  85. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/4157867.stm
  86. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2005#cite note-2
  87. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2005
  88. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2005#cite note-2
  89. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/4594023.stm
  90. https://www.dawn.com/news/157943/bomb-blasts-in-lahore-kill-six-hurt-scores
  91. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/4317998.stm
  92. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2005#cite note-2
  93. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2005#cite note-9
  94. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/4509160.stm
  95. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/4552322.stm
  96. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/4646016.stm
  97. https://www.dawn.com/news/177566/13-killed-by-bomb-blast-on-lahore-bound-bus
  98. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2006#cite note-3
  99. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/4765170.stm
  100. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/4792116.stm
  101. en:Jamaat Ahle Sunnat
  102. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/5070648.stm
  103. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/5082770.stm
  104. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/5087144.stm
  105. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2006#cite note-3
  106. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/5289880.stm
  107. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2006#cite note-3
  108. https://www.dawn.com/news/209679/six-killed-in-barkhan-explosion
  109. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/5413680.stm
  110. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/6070596.stm
  111. en:2006 Dargai bombing
  112. https://www.dawn.com/news/228209/four-die-in-refugee-camp-blast
  113. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  114. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  115. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/6309965.stm
  116. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  117. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  118. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  119. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  120. https://www.dawn.com/news/241979/15-killed-in-attack-on-two-villages
  121. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  122. en:12 مئی Karachi violence
  123. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  124. https://www.dawn.com/news/250109/tribal-chief-journalist-killed-in-bomb-blast
  125. https://www.dawn.com/news/251000/three-killed-in-bomb-attack
  126. https://www.dawn.com/news/253206/11-killed-in-attack-from-afghanistan-nato-says-60-insurgents-dead
  127. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  128. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  129. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  130. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  131. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  132. https://www.dawn.com/news/256952/another-carnage-visits-capital-17-killed-in-suicide-bombing-ppp-reception-camp-_targeted-at-cj-rally-venue
  133. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/6905808.stm
  134. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  135. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  136. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/6927188.stm
  137. en:2007 Parachinar bombing
  138. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  139. en:ستمبر 2007 bombings in Rawalpindi
  140. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  141. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  142. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  143. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  144. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  145. en:2007 Karsaz bombing
  146. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  147. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  148. https://www.dawn.com/news/273641/suicide-attack-in-top-security-zone-seven-killed-31-injured
  149. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  150. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  151. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  152. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  153. https://www.dawn.com/news/279832/suicide-bombing-hits-children-s-bus-7-injured
  154. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  155. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  156. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  157. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7155161.stm
  158. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  159. en:Assassination of Benazir Bhutto
  160. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  161. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2007
  162. https://www.dawn.com/news/284235/suicide-attack-on-police-mows-down-24-in-lahore
  163. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  164. https://www.dawn.com/news/285391/teenage-bomber-wreaks-havoc-in-peshawar-12-worshippers-dead-25-injured
  165. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  166. en:2008 Charsadda bombing
  167. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  168. en:2008 Parachinar bombing
  169. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  170. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7259302.stm
  171. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7262622.stm
  172. https://www.dawn.com/news/291713/carnage-at-slain-officer-s-funeral-dsp-killed-in-lakki-marwat-blast-38-die-in-mingora-suicide-attack
  173. https://www.dawn.com/news/291991/tribal-peace-jirga-attacked-42-killed-58-injured-in-darra-adamkhel
  174. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  175. https://www.theguardian.com/world/2008/mar/11/pakistan
  176. http://edition.cnn.com/2008/WORLD/asiapcf/03/16/pakistan/index.html
  177. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  178. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  179. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  180. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7407302.stm
  181. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  182. https://www.dawn.com/news/304779/seven-killed-in-d-i-khan
  183. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7437037.stm
  184. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  185. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  186. en:2008 Lal Masjid bombing
  187. https://www.nytimes.com/2008/07/08/world/asia/08pstan.html
  188. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  189. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7541508.stm
  190. https://www.dawn.com/news/315874/8-policemen-killed-in-attack-on-post
  191. https://www.nytimes.com/2008/08/13/world/asia/13pstan.html?_r=1&hp&oref=slogin&mtrref=en.wikipedia.org&gwh=460287E97D9437C0113CA7B1D33D091B&gwt=pay&assetType=REGIWALL
  192. https://www.dawn.com/news/300922/17-injured-in-mosque-suicide-attack
  193. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  194. https://www.dawn.com/news/317414/suicide-bomber-hits-d-i-khan-hospital-32-killed-55-injured-tehrik-i-taliban-claims-responsibility-for-the-carnage
  195. en:2008 Wah bombing
  196. https://www.dawn.com/news/317710/ex-nazim-among-five-shot-dead-in-swat
  197. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  198. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  199. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  200. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  201. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7601671.stm
  202. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  203. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7626454.stm
  204. en:Islamabad Marriott Hotel bombing
  205. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  206. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7637415.stm
  207. https://www.telegraph.co.uk/news/worldnews/asia/pakistan/3123657/Suicide-bomber-attacks-Pakistan-politicians-home.html
  208. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  209. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7660578.stm
  210. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7663574.stm
  211. http://edition.cnn.com/2008/WORLD/asiapcf/10/13/pakistan.bomb/
  212. https://www.aljazeera.com/news/asia/2008/10/2008101651419107218.html
  213. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  214. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  215. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  216. http://news.bbc.co.uk/2/hi/in_depth/7701435.stm
  217. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7704678.stm
  218. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  219. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  220. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  221. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  222. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  223. https://www.dawn.com/news/330883/ex-chief-of-commando-force-gunned-down
  224. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  225. en:نومبر 2008 Dera Ismail Khan bombing
  226. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  227. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  228. https://www.dawn.com/news/332692/10-killed-in-mingora-suicide-attack
  229. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2008
  230. https://www.dawn.com/news/336337/suicide-blast-rocks-buner-on-polling-day-36-killed
  231. https://www.dawn.com/news/337449/suicide-bomber-kills-seven-in-d-i-khan
  232. https://www.dawn.com/news/338245/fierce-battles-in-hangu-leave-26-dead
  233. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7851241.stm
  234. https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2009/01/090127_hazara_funeral_strike_zs.shtml
  235. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  236. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  237. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7876188.stm
  238. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  239. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/7894584.stm
  240. en:فروری 2009 Dera Ismail Khan suicide bombing
  241. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  242. en:2009 attack on the Sri Lanka national cricket team
  243. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  244. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  245. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  246. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  247. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  248. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  249. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  250. en:2009 Lahore police academy attacks
  251. en:2009 Islamabad Frontier Corps post bombing
  252. en:2009 Chakwal mosque bombing
  253. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  254. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/8000724.stm
  255. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  256. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/8019031.stm
  257. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  258. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  259. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  260. en:May 2009 Dera Ismail Khan bombings
  261. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  262. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  263. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  264. en:2009 Lahore bombing
  265. en:May 2009 Dera Ismail Khan bombings
  266. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  267. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  268. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  269. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  270. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  271. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  272. en:Terrorist incidents in Pakistan in 2009
  NODES
Note 18