پشتو زبان

افغانستان اور پاکستان کی ایک علاقائی زبان

پشتو ایک جنوب-مرکز ایشیائی زبان ہے جو پشتون بولتے ہیں۔ یہ فارسی اَدب میں افغانی جبکہ اُردو اور ہندی اَدب میں پٹھانی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اِس زبان کے بولنے والوں کو پشتون یا پختون اور بسا اوقات افغان یا پٹھان بھی کہا جاتا ہے۔

پشتو زبان
لفظ "پشتو" پشتو حروف تہجی میں
مقامی متکلمین
5.8 کروڑ (2019)[1][2][3][4]
ابتدائی اشکال
معیاری اشکال
لہجے~20 لہجے
فارسی عربی رسم الخط (پشتو حرف تہجی)
رسمی حیثیت
دفتری زبان
 افغانستان[5]
تسلیم شدہ اقلیتی
زبان
منظم ازافغانستان علوم اکیڈمی
پشتو اکیڈمی، پاکستان[7]
زبان رموز
آیزو 639-1ps – Pashto, Pushto
آیزو 639-2pus – Pushto, Pashto
آیزو 639-3pusمشمولہ رمز – Pashto, Pushto
انفرادی رموز:
pst – وسطی پشتو
pbu – شمالی پشتو
pbt – جنوبی پشتو
wne – ونیسی
گلوٹولاگpash1269  Pashto[8]
کرہ لسانی58-ABD-a
اس مضمون میں بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ کی صوتی علامات شامل ہیں۔ موزوں معاونت کے بغیر آپ کو یونیکوڈ حروف کی بجائے سوالیہ نشان، خانے یا دیگر نشانات نظر آسکتے ہیں۔ بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ کی علامات پر ایک تعارفی ہدایت کے لیے معاونت:با ابجدیہ ملاحظہ فرمائیں۔

یہ ایک مشرقی ایرانی زبان ہے اور اِس کا تعلق ہند-یورپی زبان کے خاندان سے ہے۔ اِس کی دو بڑی بولیاں ہیں ’’نرم‘‘ اور ’’سخت‘‘۔ سخت بولی کو پشتو کہاجاتا ہے۔

پشتو افغانستان کی دو سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے اور یہ پاکستان میں دوسری بڑی علاقائی زبان ہے۔

  1. ارض پاکستان کی علاقائی زبانوں کے حوالے سے مولانا کوثر نیازی کی تحقیق کے مطابق رگ وید میں پختو کے نام سے پشتونوں کی زبان کا ذکر رگ وید میں پہاڑی قبائل سے ذکر ملتا ہے۔
  2. ہریانوی زبان

1947 میں دہلی اور اس کے نواحی علاقوں سے 72لاکھ ہریانوی اور لطیف اردو بولنے والے مہاجرین جنوبی پنجاب، کراچی اور مشرقی سندھ میں آباد ہوگئے۔ پاکستان میں 1947 سے تاحال مردم شماری میں ان کا تخمینہ دوہری مادری زبان کے قانون سے نہیں لگایا گیا۔ لیکن اعداد و شمار کے مطابق یہ تقریبا ڈیڑھ کڑوڑ سے زائد ہے، جو پاکستان کی آبادی کا قریباّ 6.25 فیصد ہے۔

  1. ہر زبان کے شعرا اس کے بنیادی ترویج وہ ترقی کا حصہ ہوتے ہیں خوشحال خان خٹک ایک معروف پشتون شاعر اور دوسرے بابا عبد الرحمان پشتون شاعر جن کا کلام فارسی میں بھی ملتا ہے انتہائی اہمیت کے حامل شعرا ہیں۔

جغرافیائی تقسیم

ترمیم

پشتو كو افغانستان میں قومی زبان کی حیثیت حاصل ہے اور یہ ملک کے مشرق، جنوب اور جنوب مغرب میں بولی جاتی ہے۔ بولنے والوں کی تعداد کا صحیح اندازہ موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں پشتون ملکی آبادی کی تقریباً 15.42 فی صد حصّے کی اوّلین زبان ہے۔ یہ پشتون اکثریتی علاقوں خیبر پختونخوا، وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات اور شمالی بلوچستان میں بڑی زبان ہے۔ یہ اسلام آباد اور پنجاب کے اضلاع میانوالی اور اٹک کے کچھ حصّوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ ملک کے کچھ شہروں جیسے کراچی اور حیدرآباد میں بھی پشتو بولنے والے ملتے ہیں۔

پشتو زبان کی قدامت

ترمیم

پٹھانوں کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ پشتو آریوں سے پہلے کی زبان ہے۔ جب کہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ یہ عبرانی کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ جب کہ غیر جانبدار ماہرین اسے آریائی زبان قرار دیتے ہیں۔ لہذا اس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔

پروفیسر پریشان خٹک لکھتے ہیں کہ پشتو زبان کی قدامت ہزاروں سال تک پہنچتی ہے۔ مگر پشتو شاعری کا تحریری ثبوت 138 میں پہلی بار ہاتھ آیا ہے۔ مولانا عبد القادر کا کہنا ہے کہ پشتو ہند آریازبانوں کی ماں ہے اس لیے لب و لہجہ اور صوتیات میں یہ عربی و عبرانی زبانوں سے یعنی سامی زبانوں سے مختلف ہے۔

قیاس کہتا ہے پشتو جس دور سے گذری اور جیسے رنگ میں رہی ہے یقیناً وقت وقت کے مختلف لہجوں میں بولی گئی ہو گی اور وقت وقت کے مختلف خطوں میں لکھی گئی ہوگی۔ اس خیال کی اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ داریوس کبیر ( 516 ق م ) کے سنگی کتبوں میں جو میخی خط میں کندہ کیے گئے ہیں۔ تین جملے پشتو سے اس قدر مشابہ ہیں کہ خالص پشتو پتہ ہوتے ہیں۔ وہ جملے بہت تھورے اختلاف کے ساتھ یوں ہیں ۔

نے اُرَیکہَ آہم۔ نے دِرَوعَنہ َ۔ نے زوُر گرَ ہ آہم ( قدیم سنگی کتبہ )

نے اڑیل یم۔ نہ درو غژن یم۔ نہ زور ور یم ( پشتو صورت )

نہ اڑیل ہوں۔ دروغ گو ہوں۔ نہ جابر ہوں ( اردو ترجمہ)

ایسے ہی سنگی کتبوں کا جو خروشتی یا کسی دوسرے براہمی خط میں کندہ ہیں اور پشتونوں کے علاقے میں پائے گئے ہیں، اگر بغور و بدقت نظر مطالعہ کیا جائے تو بہت سمبھو ہے کہ ان میں کسی نہ کسی شکل میں پشتو نکل آئے۔ کیوں کہ جیسا کہ شروع میں بیان کیا جا چکا ہے، ادھر اوستا، پہلوی اور فارسی میں، ادھر سنسکرت، ہندی اور دیگر ملحقہ پراکرت میں پشتو کے سیکڑوں الفاظ آج بھی پائے جاتے ہیں۔ بہر کیف باقیدہ تحریری شکل میں پشتو ادب صرف عربی رسم الخط میں سامنے آیا۔

اگر یہ اعتراف کر لیا جاتا کہ پشتو ہند آریائی کی ایک شاخ ہے تو سارے عقدے حل ہوجاتے۔ جب کہ انھیں یہ بھی اعتراف ہے کہ صدیوں کے تغیرات سے بھاشایں کچھ سے کچھ ہوجاتی ہیں۔ اس لیے ان کا کہنا ہے کہ پشتو وقت کے ساتھ مختلف لہجوں اور خظوں میں لکھی جاتی ہوگی۔ اس سلسلے میں داریوش کے کتبے کے تین جملوں کا بالاذکر حوالہ دیاہے ان جملوں کے بارے میں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ پشتو ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رنگ اور لہجہ مختلف ہو گیا تو وہ پشتو کیسے ہو گئی؟ اور دارانے اپنے کتبہ میں پشتو کو قدیم فارسی کے ساتھ کیوں جگہ دی؟ کیا پشتو اس وقت اتنی ترقی یافتہ بھاشا تھی کہ اس کا استعمال ایک طاقت ور حکومت نے اپنے کتبہ میں جگہ دی اور قدیم فارسی اتنی اتنی غیر ترقی یافہ تھی وہ بنیادی ضرورتوں کو یا خیالات اور افکار کو پیش کرنے سے قاصر تھی کہ وہ روز مرہ پشتو کا محتاج ہو گئی؟ نعمت اللہ ہراتی نے سب سے پہلے پٹھانوں کو یہود نسل بتایا ہے۔ پٹھانوں کو یہود نسل کہنے والوں کا دعویٰ ہے کہ پشتو عبرانی کی بگڑی شکل ہے۔

عجیب بات ہے پشتونوں کے دونوں گروہ اس دعویٰ کے مدعی ہیں کہ انھوں نے آریاؤں کو تہذیب و تمذن سے آشنا کیا۔ آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ آریوں نے باختریوں سے کاشتکاری اور تہذیب و تمدن سے آشنا ہوئے۔

افغانوں کو یہود نسل پر اصرار کرنے والوں دعویٰ ہے کہ پشتو سامی زبان ہے۔ مگر درج ذیل خصوصیات بتاتی ہیں کہ پشتو آریائی زبان ہے۔

  • پشتو میں نمایاں حرف دندانے دار ہیں، جو آریائی زبانوں کی خصوصیت ہے اور یہ حرف ( پ، ٹ، چ، ژ، ذ، ڑ، گ ) سامی زبانوں میں استعمال نہیں ہوتے ہیں اور سامی قومیں ان حرف کی ادائیگی نہیں کرسکتی ہیں۔
  • پشتو میں ابتدائی حرف صیح کے ساکن کا استعمال عام ہے۔ جب کہ سامی زبانوں میں ابتدائی حرف ساکن نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے اردومیں سامی یا عربی کے زیر اثر ’اسکول ‘ کو اسکول بولتے ہیں۔
  • پشتو میں سامی زبانوں کی طرح ایک ساتھ دو ساکن حرف استعمال نہیں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے پشتو بولنے والے درخت اور گوشت بولنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ وہ اسے ’ دَرخَت ‘ اور گُوشَت سے ادا کرتے ہیں۔
  • مولانا عبد القادر کا کہنا ہے کہ ’ ث، ح، ذ، ص، ض، ط، ظ اور ع ‘ عربی حرف ہیں، پشتو کے کلمہ ان حرف سے نہیں بنتے ہیں، اگر کسی کلمہ میں ان حرف کا استعمال ہوا ہے تو کلمہ عربی ہے یا معرب۔

پشتو کا ماخذ

ترمیم

ڈاکٹر شہید اللہ کا کہنا ہے کہ پشتو ہند یورپی زبانوں کے گروہ کی ہند آریائی شاخ سے تعلق رکھتی ہے اور ہند آریائی کی چھوتی شاخ ایرانی سے ماخذ ہے۔ اس میں دردی گروہ ( باشگلی، وائے لا، دیرون اور تیراہی وغیرہ ) کی بعض صوتی خصوصیات شامل ہیں۔ ایک روسی مشترق وی اے ابائیف کا کہنا ہے کہ پشتو میں لثوی اصوات آریائی اصوات کا حصہ نہیں رہے ہیں، وہ لازمی دڑاوری زبان سے ماخذ ہیں۔ افغانستان شروع ہی سے قوموں کی گذر گاہ رہا ہے۔ یہ قبائل چاہے مشرق کی طرف چینی ترکستان کی طرف سے آئے ہیں یا مغرب میں یونان، ایران و عرب ممالک کی سے اور ان قبائل تمام نے پشتو زبان کی تشکیل میں حصہ لیا ہے۔ ظاہر ہے ان قبائل کی مختلف زبانوں نے اپنا اثر چھوڑا ہے ۔

ترخان میں بعض اوراق ایک اور زبان کے ملے ہیں، جسے سغدی زبان قرار دیا گیا ہے اور یہ ہند سکاتی یا سکاتی گروہ سے تعلق رکھتی ہے، جو مشرقی ایرانی زبانیں کہلاتی ہیں جن کی نمائندگی پشتو اور پامیر کی بعض زبانیں (سری، قولی، دخی وغیرہ) کرتی ہیں ۔

سیکاتی یا سیھتی یا ساکا افغانستان کے شمالی علاقوں میں عہد قدیم سے آباد تھے۔ یہ آریوں کے ہم نسل تھے۔ یہ بعد کے زمانے میں افغانستان پر چھاگئے اور انھوں نے افغانستان پر حکومت بھی کی۔ ان کی حکومتیں افغانستان سے ختم ہوگیں، مگر ان کے اثرات افغانستان پر بدستور قائم رہے۔ ساکاؤں کے جہاں افغانستان پر گہرے اثرات پڑے وہاں ان کے اثرات مقامی زبانوں پر بھی پڑے۔ مثلاً پشتو میں دریا کو سین بولتے ہیں یہ بھی ساکائی کلمہ ہے۔ آج شمالی برصغیر اور رجپوتانے کے اکثر دریاؤں نہروں اور نالوں کے نام سین، سون اور سندھ کی شکل میں ملتے ہیں ۔

ترک النسل قبائل میں یوچی، ہن اور ترک شامل ہیں۔ انھوں نے اس علاقے پر طویل عرصہ تک حکومت کی۔ ان قبائل کی حکومتیں اگرچہ برصغیر خاص کر شمالی برصغیر پر بھی قائم ہوئیں۔ مگر وہاں ان کا تسلط زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہا اور دوسری اہم بات یہ ہے یہ قبائل برصغیر کی ثقافت کے زیر اثر آجانے کی وجہ سے اپنے وہ گہرے اثرات مرتب نہیں کیے۔ جو انھوں نے افغانستان میں چھوڑے ہیں اور آج بھی بہت سے افغان قبائل ترکی النسل ہیں۔ یہی وجہ ہے ترکی زبان کے اثرات پشتو پر بھی پڑے اور خاص کر ’ ف اور ق ‘ کا پشتو میں استعمال عام ہوا ۔

عربوں کے دور میں عربی کا نمایاں اثر پڑا اور خاص سامی یا عربی حروف کا پشتو میں استعمال ہوا۔ اس سے پہلے یہاں ’ ث، ح، ڈ، ص، ض ط، ظ اور ع ‘ کا استعمال یہاں کی زبانوں میں نہیں ہوتا تھا اور بہت سے عربی الفاظ یا ان کے معرب پشتو میں استعمال ہوئے ۔

پشتو آریائی کی ایرانی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے اکثر الفاظ اوستا، فارسی اور سنسکرت کے قریب ہیں۔ بقول جمال الدین افغانی کہ حق تو یہ ہے لوگ ایرانی الاصل ہیں اور ان کی زبان ژند و اوستا سے ماخوذ ہے اور آج کل کی فارسی سے بہت مشابہہ رکھتی ہے۔ جدید مورخین مثلاً فرانسس فغورمان وغیرہ اس کی تائید کرتے ہیں ۔

اس کی تائید میں درج ذیل کچھ الفاظ پیش کیے جا رہے ہیں، جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پشتو آریائی زبان ہے۔

پشتو سنسکرت اوستا فارسی اردو معنی
ستورے ستاری ستوبہ ستارہ ستارہ
مخ مکر درکھ رخ چہرہ
شپہ جرمن شپ شب رات/شب
سخر ہوسور ہورسور خسر سسر
ژبان/ژبہ - بھاشا بھاشا
خاخ شاکھ ۔ شاخ شاخ
اُبہ آپ آپ آب پانی
سرمن چرمن جرمن چرم چنرہ/کھال
پلار پائری پتر پدر باپ
غرما گرما گر ۔ دوپہر
غوا گؤ گؤ گاؤ گائے
تاوا /کشتئی نؤ نااؤ ۔ کشتی
اسپہ اشو اسپ اسب گھوڑا
ذات جات زات زاد ذات
نمر/لمر سوریے - آفتاب سورج

پشتو میانہ فارسی (پہلوی) سے قریب ہے۔ اس میں فرق ’ل‘ کا ہے۔ میانہ فارسی میں جہاں ’ر‘ استعمال ہوا ہے، وہاں پشتو میں ’ل‘ یا ’ڑ‘ استعمال ہوا ہے۔ قدیم ایرانی زبانوں (اوستا، قدیم فارسی، پہلوی) میں ’ل‘ استعمال نہیں ہوا ہے۔ پشتو میں ایرانی الفاظ کی اندورنی ’د‘ کی جگہ ’ل‘ استعمال ہوا ہے اور ہندوستانی زبانوں کی قربت کی وجہ سے اس زبان میں کوزی حروف بھی مروج ہیں۔

پشتو فارسی اردو
پُل پُل پُد
پلار پدر باپ

ترکی النسل قبائل میں یوچی، ہن اور ترک شامل ہیں۔ انھوں نے اس علاقے پرطویل عرصہ تک حکومت کی۔ ان قبائل کی حکومتیں اگرچہ برصغیر خاص کر شمالی برصغیر پر بھی قائم ہوئیں۔ مگر وہاں ان کا تسلط زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہا اور دوسری اہم بات یہ ہے یہ قبائل برصغیر کی ثقافت کے زیر اثر آجانے کی وجہ سے اپنے وہ گہرے اثرات مرتب نہیں کیے۔ جو انھوں نے افغانستان میں چھوڑے ہیں اور آج بھی بہت سے افغان قبائل ترکی النسل ہیں۔ یہی وجہ ہے ترکی بھاشا کے اثرات پشتو پر بھی پڑے اور خاص کر ’ف اور ق‘ کا پشتو میں استعمال عام ہوا۔ ترکی النسل قبائل کا اثر پشتو کی تشکیل اور ارتقا باعث بنا اور پشتو میں ایرانی ’گ‘ کی جگہ ’غ‘ استعمال ہوا۔ مثلاً


ہندآریائی بھاشاوں کی قربت کی سے حنکی حرف استعمال ہوتے ہیں اور یہ بھاشا دوحصوں میں تبدیل ہو گئی، ایک مشرقی اور دوسری مغربی۔ پشتو بولنے والے اس طرح دو طبقوں میں مستقیم ہیں ایک وہ ’ژ‘ اپنی اسی آواز کے ساتھ بولتے ہیں جو پشتو میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرے وہ جو ’ژ‘ کی جگہ ’گ یا ج‘ بولتے ہیں۔ اس امتیاز کے لیے عام طور پر ’ژ اور ش‘ بولنے والے خٹک لہجے کے پشتون اور ’گ، ج اور خ بولنے والے یوسف زئی لہجے کے پختون کہلاتے ہیں۔

پشتو میں اس امتیاز کی فرضی لکیر اٹک سے افغانستان میں دور تک چلی گئی ہے۔ سر آلیف کیرو باالوضاحت سے بتلائی ہے کہ شمال مشرقی قبیلے پختو اور جنوب مغربی قبیلے پشتو بولتے ہیں۔ دونوں کے درمیان میں حد فاضل شرقاً و غرباً اٹک کے جنوب میں دریائے سندھ سے کوہاٹ اور وادی میراں زئی سے ہوتی ہوئی تل تک، وہاں سے دریائے کرم کے جنوب میں ہریوب اور درہ شترگردن تک چلی گئی ہے۔ اس حد کے شمال مشرق میں پختو بولی جاتی ہے اور یہ قبائل دیر، سوات، بنیڑ اور باجور کی بھاشا ہے۔ اس حد کے جنوب مغرب میں جو قبائل پشتو بولتے ہیں، ان میں خٹک، درانی اور قریب قریب (جلال آباد کے کچھ لوگوں کو چھوڑ کر) خوست، وزیرستان کے سارے قبائل بنوں، ڈیرہ جات کے قبائل اور ژوب اور بلوچستان کے دوسرے علاقے بھی جو قندھار کے قریب واقع ہیں پشتو بولتے ہیں۔

دولہجے

ترمیم

ہندآریائی زبانوں کی قربت کی سے حنکی حرف استعمال ہوتے ہیں اور یہ زبان دوحصوں میں تبدیل ہو گئی، ایک مشرقی اور دوسری مغربی۔ پشتو بولنے والے اس طرح دو طبقوں میں مستقیم ہیں ایک وہ ’ژ‘ اپنی اسی آواز کے ساتھ بولتے ہیں جو پشتو میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرے وہ جو ’ژ‘ کی جگہ ’گ یا ج‘ بولتے ہیں۔ اس امتیاز کے لیے عام طور پر ’ژ اور ش‘ بولنے والے خٹک لہجے کے پشتون اور ’گ، ج اور خ بولنے والے یوسف زئی لہجے کے پختون کہلاتے ہیں۔

پشتو میں اس امتیاز کی فرضی لکیر اٹک سے افغانستان میں دور تک چلی گئی ہے۔ سر آلیف کیرو باالوضاحت سے بتلائی ہے کہ شمال مشرقی قبیلے پختو اور جنوب مغربی قبیلے پشتو بولتے ہیں۔ دونوں کے درمیان میں حد فاضل شرقاً و غرباً اٹک کے جنوب میں دریائے سندھ سے کوہاٹ اور وادی میراں زئی سے ہوتی ہوئی تل تک، وہاں سے دریائے کرم کے جنوب میں ہریوب اور درہ شترگردن تک چلی گئی ہے۔ اس حد کے شمال مشرق میں پختو بولی جاتی ہے اور یہ قبائل دیر، سوات، بنیڑ اور باجور کی زبان ہے۔ اس حد کے جنوب مغرب میں جو قبائل پشتو بولتے ہیں، ان میں خٹک، درانی اور قریب قریب (جلال آباد کے کچھ لوگوں کو چھوڑ کر) خوست، وزیرستان کے سارے قبائل بنوں، ڈیرہ جات کے قبائل اور ژوب اور بلوچستان کے دوسرے علاقے بھی جو قندھار کے قریب واقع ہیں پشتو بولتے ہیں۔

ایرانی پشتو معنی
گان غان نسبتی کلمہ ہے جو کلمہ کے اسمی لاحقہ کے آخر میں آتا ہے۔
گر غر پہاڑ
گرما غرما دوپہر
پشتو رسم الخط مغربی مشرقی معنی
ځناور زناور جناور جانور
څمڅه سمسہ چمچہ چمچ
ږلئۍ گژئی گلتی اولے
ښيښه شیشہ خیخہ شیشہ

[9]

لہجے

ترمیم

کئی وجوہات کی بنا پر پشتو کی بے شمار بولیاں ہیں۔ تاہم، مجموعاً پشتو کی اصل میں دو لہجے ہیں: نرم یا مغربی لہجہ اور سخت یا مشرقی لہجہ۔ اِن دونوں بولیوں میں فرق کچھ حروفِ علّت اور آوازوں کا استعمال ہے۔
قندہار کی بولی سب بولیوں میں معتدل ہے۔ یہ لہجہ عرصہ دراز سے اپنی اصل حالت برقرار رکھے ہوئے ہے۔

جغرافیائی تقسیم

ترمیم

پاکستان میں پشتو بولنے والے زیادہ تر پاکستان کے مغربی علاقوں جیسے صوبہ خیبر پختونخوا، وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں ہیں۔ اس کے علاوہ پشتو بولنے والے گروہ سندھ کے بڑے شہروں جیسے حیدرآباد اور کراچی میں بھی آباد ہیں بلکہ سب سے زیادہ اگر پشتو کسی شہر میں بولی جاتی ہے تو وہ کراچی ہے جہاں پشاور سے بھی زیادہ لوگ پشتو بولتے ہیں، کراچی میں 7 ملین پشتو متکلمین آباد ہیں۔[10]اسی طرح پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پشتو بولنے والے افراد میانوالی،اٹک ،ڈیرہ غازی خان اور شمال مغربی پنجاب کے دیگر علاقوں میں آباد ہیں اور صوبائی دار الحکومت لاہور میں بهی پشتو بولنے والے ہیں۔

 
Pashto-speakers by Pakistani District - 2017 Census

افغانستان میں پشتو سب سے بڑی بھاشا ہے جو تقریباًً 42 فیصد سے بھی زیادہ افراد کی مادری بھاشا ہے۔ پشتو افغانستان کی دفتری بھاشا ہے جس کی وجہ سے اسے ایک بین الاقوامی حیثیت پراپت ہے۔ کچھ ذرائع کے مطابق پشتو افغانستان کی 55 سے 60 فیصد لوگ بولتے ہیں۔ افغان جنگ کے دوران میں 7 ملین سے زائد پشتون افغان پاکستان آئے ہیں جن کا شمار پاکستانی مردم شماری میں نہیں کیا گیا تھا۔

دفتری حیثیت

ترمیم

پشتو بھاشا (مع فارسی) افغانستان کی سرکاری، دفتری اور قومی بھاشا ہے۔ یہ ایک سماجی اور ثقافتی ورثے کا خزانہ بھی ہے۔

صرف و نحو

ترمیم

پشتو فاعل-مفعول-فعل بھاشا ہے۔ صفت اسم سے پہلے آتا ہے۔ ہر جنس (مذکر/مؤنث)، اعداد (جمع/واحد) وغیرہ کے لیے الگ الگ صفت اور اسم استعمال کیے جاتے ہیں۔

ذخیرہ الفاظ

ترمیم

پشتو بھاشا زمانۂ قدیم سے دوسری بھاشاوں جیسے فارسی اور سنسکرت سے الفاظ لیتی رہی ہے۔ دوسری تہذیبوں اور گروہوں کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے پشتو میں قدیم یونانی، عربی اور ترکی بھاشا کے بھی الفاظ ہیں۔ جدید الفاظ انگریزی سے لیے گئے ہیں۔

تحریری نظام

ترمیم

جنوب مرکزی ایشیاء میں طلوعِ اسلام کے بعد پشتو عربی رسم الخط کا ایک ترمیم شدہ نسخہ استعمال کرتی ہے۔ سترہویں صدی عیسیوی سے کئی رسم الخط استعمال کیے گئے۔ لیکن سب سے زیادہ نسخ رسم الخط کو ترجیحی بنیادوں پر استعمال کیا گیا۔ پښتو رسم الخط میں کئی ایسے حروف ہیں جو عربی کے کئی رسم الخطوط، جو دوسری بھاشاوں جیسے عربی، اُردو اور فارسی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، اُن میں موجود نہیں۔ پشتو میں فارسی رسم الخط کا حرف ‘‘پ’’ (عربی رسم الخط میں اضافہ) بھی استعمال ہوتا ہے۔

پښتو حروفِ تہجّی

ترمیم

پشتو کے حروفِ تہجّی درج ذیل ہیں:

ا ب پ ت ټ ث ج ځ چ څ ح خ د ډ ذ ر ړ ز ژ ږ س ش ښ ص ض ط ظ ع غ ف ق ک ګ ل م ن ڼ ه و ى ئ ي

حروف صرف پښتو کے لیے مخصوص

ترمیم

درج ذیل حروف صرف پشتو میں استعمال کیے جاتے ہیں:
ټ، ځ، څ، ډ، ړ، ږ، ښ، ګ ڼ، ې ،ۍ

پښتو کے پانچ ‘‘یا’’

ترمیم

درج ذیل وہ پانچ ‘‘یا’’ ہیں جو پشتو تحریر میں استعمال ہوتے ہیں:
ی، ي، ې، ۍ، ﺉ

مثالیں

ترمیم

نوٹ: درج ذیل میں پښتو کا یوسفزئی لہجہ استعمال کیا گیا ہے۔
امر یا حکم (مذکر واحد):

  • پشتو: مدرسے تہ لاړ شہ یا مدرسے تہ ځہ
  • اُردو: مدرسے جاؤ!

امر یا حکم (مؤنث واحد):

  • پشتو: ښونّّّځي تہ لاړہ شہ
  • اُردو: مدرسے جاؤ!

فعل حال سادہ:

  • پشتو: زہ ښونځی تہ ځم
  • اُردو: میں مدرسے جاتا ہوں۔

فعل حال مطلق:

  • پشتو: زہ ښونځی تہ تللی یم
  • اُردو: میں مدرسے جاچکا ہوں۔

فعل ماضی سادہ:

  • پشتو: زۀ مدرسے تہ لاړم
  • اُردو: میں مدرسے گیا۔

فعل ماضی مطلق:

  • پشتو: زۀ مدرسے تہ تلے ووم
  • اُردو: میں مدرسے جاچکا تھا۔

فعل ماضی عادی:

  • پشتو: زۀ بہ مدرسے تہ تلم
  • اُردو: میں مدرسے جایا کرتا تھا۔

مثالیں برائے استعمالِ فعل ‘‘کھانا’’:
فعلِ امر (حاضر واحد) :

  • پشتو: کُچ اوخورہ!
  • اُردو: مکھن کھاؤ!

فعلِ امر (حاضر جمع) :

  • پشتو: کُچ اوخورۍ!
  • اُردو: مکھن کھائیے!

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Eberhard, David M., Gary F. Simons, and Charles D. Fennig (eds.). 2019. Ethnologue: Languages of the World. Twenty-second edition. Dallas, Texas: SIL International.
  2. Nationalencyklopedin "Världens 100 största språk 2007" The World's 38 Largest Languages in 2007 (39 million)
  3. Pashto (2005)۔ کیتھ براؤن (مدیر)۔ دائرۃ المعارف زبان و لسانیات (2 ایڈیشن)۔ ایلسویر۔ ISBN:0-08-044299-4 {{حوالہ کتاب}}: پیرامیٹر |ref=harv درست نہیں (معاونت)
  4. Concise Encyclopedia of Languages of the World۔ Elsevier۔ 6 اپریل 2010۔ ص 845–۔ ISBN:978-0-08-087775-4
  5. Sebeok، Thomas Albert (1976)۔ Current Trends in Linguistics: Index۔ Walter de Gruyter۔ ص 705
  6. ہیمر اسٹورم، ہرالڈ؛ فورکل، رابرٹ؛ ہاسپلمتھ، مارٹن، مدیران (2017ء)۔ "Pashto"۔ گلوٹولاگ 3.0۔ یئنا، جرمنی: میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومین ہسٹری {{حوالہ کتاب}}: |chapterurl= میں بیرونی روابط (معاونت) والوسيط غير المعروف |chapterurl= تم تجاهله يقترح استخدام |مسار الفصل= (معاونت)
  7. * مولانا عبد القار و سیّد انوار الحق۔ پشتو۔ معارف اسلامیہ * فارسی۔ معارف اسلامیہ * جیمزٹاڈ۔ تاریخ راجستان جلد اول * روشن خان، افغانیوں کی نسلی تاریخ * سیّد جمال الدین افغانی۔ الافغان * اشفاق احمد۔ ہفت ابانی لغت * نعمت اللہ ہراتی، مخزن افغانی شیر محمد گنڈا پور۔ تاریخ پشتون* پردل خٹک : پشتو زبان * پری شان خٹک ؛ مقدمہ۔ پشتو زبان
  8. FRONTLINE/WORLD . Rough Cut . Pakistan: Karachi's Invisible Enemy | PBS

بیرونی روابط

ترمیم
  NODES
INTERN 1