باہوبلی
باہوبلی (مطلب: طاقتور بازوؤں والا) جینیوں کی ایک نہایت قابلِ احترام شخصیت ہیں، وہ جین دھرم کے پہلے تیرتھنکر "آدی ناتھ" کے بیٹے اور بھرت چکرورتی کے چھوٹے بھائی تھے۔ خیال ہے کہ انھوں نے ایک سال مسلسل کھڑے ہو کر ایسی ریاضت کی تھی کہ پاؤں کے درمیان میں سے جنگلی پودے اگ آئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ریاضت کے بعد باہوبلی کو ہمہ دانی (کیول گیان) حاصل ہوئی۔ جین متون کے مطابق باہوبلی نے کیلاش پربت پر جنم اور موت کے چکر سے نجات (موکش) حاصل کی۔ جین مت کے پیروکار ان کا ایک نجات یافتہ آتما (سدھ) کی حیثیت سے احترام کرتے ہیں۔
باہوبلی | |
---|---|
شرون بیلگول، کرناٹک میں واقع 59 فٹ اونچی گومٹیشور مورتی، جو 981ء میں بنائی گئی | |
دیگر نام | گومٹیشور، کامٹیشور |
قد | 157.5 میٹر |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | |
وفات | |
والدین |
|
باہوبلی کے لیے وقف کی گئی مورتی گومٹیشور مورتی کی وجہ سے انھیں گومٹیشور بھی کہا جاتا ہے، چنانچہ آندھرا پردیش اور کرناٹک کے صوبوں میں واقع پرانے مندروں کے نقوش میں ان کا نام بھگوان کامٹیشور لکھا ہے۔[1][2] اس مورتی کو گنگ شاہی خاندان کے وزیر اور کمانڈر چامونڈ رائے نے بنایا تھا؛ یہ 57 فٹ (17 میٹر) اونچی مورتی بھارت کے صوبہ کرناٹک کے ضلع ہاسن میں شرون بیلگول میں ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے۔ اسے 981ء کے آس پاس بنایا گیا تھا۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی بغیر سہارے کی کھڑی مورتیوں میں سے ایک ہے۔
داستانیں
ترمیمنویں صدی کی سنسکرت نظم آدی پران پہلے تیرتھنکر رِشبھ ناتھ اور اس کے دو بیٹوں بھرت اور باہوبلی کی 10 زندگیوں پر مشتمل ہے۔ اسے جن سین نے تالیف کی، جو ایک دگمبر سادھو تھا۔[3]
خاندانی زندگی
ترمیمجین متون کے مطابق باہوبلی کا جنم ایودھیا میں اکشواکو راج میں رِشبھ ناتھ اور سُنندا کے گھر میں ہوا تھا۔[4][5][6][7] کہا جاتا ہے کہ وہ دوائیوں، تیر اندازی، گل پروری (پھولوں کی کاشت) اور قیمتی ہیروں کی معلومات کا مطالعہ کرنے میں فضیلت رکھتے تھے۔[8] باہوبلی کا بیٹا بھی تھا جس کا نام سومکرتی تھا (اسے "مہا بال" بھی کہا جاتا ہے)۔ جب رشبھ ناتھ نے ایک سادھو بننے کا فیصلہ کیا تو اس نے اپنے 100 بیٹوں میں اپنی سلطنت تقسیم کی۔ بھرت کو ونیتا کی سلطنت (ایودھیا) تحفے میں دی اور باہوبلی نے جنوبی ہند سے اسمک کی سلطنت کا حصہ حاصل کیا، جس کا دار السلطنت پوڈن پور تھا۔[9] ساری سمتوں (digvijaya) میں دنیا کے چھ حصوں کو جیتنے کے بعد بھرت اپنے دار السلطنت ”ایودھیا پوری“ میں ایک بڑی فوج اور چکر رتن اور ڈسک نما دندانہ دار نوکوں والے عظیم ہتھیار کے ساتھ آگے بڑھا۔[9] پر چکر رتن ایودھیا پوری کے داخلی دروازے پر اپنے آپ ہی بند ہو گئی، یہ بادشاہ کو اشارہ دینے کے لیے تھا کہ اس کے 99 بھائیوں نے اسے اپنے حق کو نہیں سونپا ہے۔[10] بھرت کے 98 بھائی جین سادھو بن گئے اور انھوں نے اپنی سلطنتیں اسے سونپ دیں۔ باہوبلی کو بھرت کی طرح غیر معمولی طاقتوں والے برتر جسم اور قوت سے نوازا گیا تھا۔[11] بھرت نے چکرورتی (برتر حکمران) کے معاملے پر سرکشی کی اور باہوبلی کو لڑائی کے لیے چیلنج کیا۔[12]
دونوں سلطنتوں کے وزرا نے جنگ کو روکنے کے لیے دلیل دی؛ ”بھائی ایک دوسرے کو کسی بھی طریقے سے نہیں مار سکتے، وہ آواگون میں اپنے آخری اوتاروں میں ہیں اور ان کے جسم ایسی قوت کے مالک ہیں جن کو کوئی بھی ہتھیار جنگ میں زخمی نہیں کر سکتا ہے! وہ بغیر جنگ کیے اس مسئلے کا حل تلاش کریں“۔[13] پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جھگڑے کا تصفیہ کرنے کے لیے، بھرت اور باہوبلی کے درمیان میں تین قسم کے مقابلے کروائے جائیں گے۔ یہ آنکھوں کی جنگ (ایک دوسرے کو گھورنا)، پانی کی جنگ (جل یُدھ) اور کشتی (مل یدھ) تھے۔ باہوبلی نے اپنے بڑے بھائی بھرت سے تینوں مقابلے جیتے۔[9][14]
سنیاس
ترمیمجنگ کے بعد باہوبلی دنیا سے نفرت کرنے لگے اور ان کے دل مین سنیاس لینے کی خواہش پیدا ہوئی۔ باہوبلی اپنے کپڑے اور سلطنت تیاگ کے ایک دگمبر سنیاسی بن گئے اور ہمہ دانی (کیول گیان) کو حاصل کرنے کے لیے ریاضت کرنا شروع کر دی۔[15]
کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مسلسل ایک سال تک کھڑے رہ کر (کایوتسرگ) بغیر ہلے جُلے ریاضت کی ہے، اس دوران میں ان کے پیروں کے اطراف پودے اُگ آئے تھے۔[16] تاہم وہ انتہائی سخت جان تھے اور انھوں نے ان کے جسم پر چڑھی بیل، چیونٹیوں اور دھول کی پروا کیے بغیر اپنا عمل جاری رکھا۔ جین مت کی مقدس کتاب آدی پران کے مطابق، باہوبلی کے ایک سال کے لمبے عرصے کے آخری دن، بھرت عاجزی کے ساتھ ان کے پاس آیا اور ان کی عزت و احترام کے ساتھ پوجا کی۔ ان کے بڑے بھائی کی عاجزی کی وجہ سے باہوبلی کا دھیان بھٹک رہا تھا؛ جب بھرت نے ان کی پوجا کی تو وہ منتشر ہو گئے۔[17] باہوبلی اب چار طرح کے نقصان دہ کرموں کو تباہ کرنے کے اہل تھے، جن میں علم کا غیر واضح کرم بھی شامل تھا اور انھوں نے ہمہ دانی (کیول گیان) حاصل کی۔ ان کا اب ہمہ دان (کیولی) کے طور پر احترام کیا جاتا ہے۔[16] باہوبلی نے آخر کار نجات (موکش) حاصل کی اور ایک نجات یافتہ آتما (سدھ) بن گئے۔ انھیں وقت کے آدھے چکر (اوسرپنی) میں موکش حاصل کرنے والا پہلا دگمبر سادھو کہا جاتا ہے۔[4]
مورتیاں
ترمیمکرناٹک میں 6 میٹر (20 فٹ) سے زیادہ اونچائی والے باہوبلی کی ایک ہی پتھر سے بنی ہوئی 5 مورتیاں ہیں:
- 981ء میں ضلع ہاسن کے شرون بیلگول میں 17.4 میٹر (57 فٹ) اونچی مورتی بنی۔[18][19]
- 1430ء میں ضلع اڈوپی کے کارکل میں 12.8 میٹر (42 فٹ) اونچی مورتی بنی۔[19]
- 1973ء میں دکشن کنڑ ضلع کے دھرم استھل میں 11.9 میٹر (39 فٹ) اونچی مورتی بنی۔[19]
- 1604ء میں دکشن کنڑ ضلع کے وینور میں 10.7 میٹر (35 فٹ) اونچی مورتی بنی۔[19]
- 12ویں صدی عیسوی میں ضلع میسور کے گومَٹا گِری میں 6 میٹر (20 فٹ) اونچی مورتی بنی۔[20]
شرون بیلگول
ترمیمبنگلور سے 158 کلومیٹر (98 میل) کے فاصلے پر واقع شرون بیلگول میں باہوبلی کی ایک ہی پتھر سے بنی مورتی بنائی گئی، جو گرینائٹ کے ایک ہی بلاک سے تراشی گئی تھی۔ اس مورتی کو گنگا شاہی خاندان کے وزیر اور کمانڈر چوندرائے نے تعمیر کیا تھا؛ یہ 57 فٹ (17 میٹر) لمبی ہے اور یہ کرناٹک کے ضلع ہاسن کے شرون بیلگول کی پہاڑی کے اوپر واقع ہے۔ یہ 981ء کے آس پاس بنوائی گئی تھی اور دنیا میں سب سے زیادہ بڑی بغیر سہارے کی کھڑی مورتیوں میں سے ایک ہے۔[4][5][21] یہ مورتی 25 کلومیٹر (16 میل) دور سے نظر آتی ہے۔ شرون بیلگول جینیوں کے لیے تیرتھ سفر کا مرکز رہا ہے۔[22]
کارکل
ترمیمکارکل اس کی 42 فٹ اونچی مورتی کے لیے مشہور ہے یہ 1432ء کے آس پاس بنی اور ریاست میں دوسری سب سے بڑی اونچی مورتی ہے۔[23][19] اس مورتی کو چٹانی پہاڑی کے اوپر ایک اونچے پلیٹ فارم پر بنایا گیا ہے۔ 13 فروری 1432ء کو بھیرارس شاہی خاندان کے وارث ”ویر پنڈیا بھیرارس ووڈیار“ نے اس مورتی کو باہوبلی کے لیے وقف کیا تھا۔[19][24]
دھرم استھل
ترمیمایک 39 فٹ (12 میٹر) اونچی مورتی جس کی 13 فٹ (4.0 میٹر) کی چوکی ہے۔ اس کا وزن 175 ٹن (175,000 کلو گرام) ہے، اس کو کرناٹک کے دھرم استھل میں لگایا گیا ہے۔[25][19]
وینور
ترمیموینور، گروپورا ندی کے کنارے پر واقع، ریاست کرناٹک کے دکشن کنڑ ضلع کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ تھمنا اجیلا نے 1604ء میں یہ 38 فٹ (12 میٹر) اونچی مورتی بنائی۔[23][19][26] وینور کی مورتی اس کے قریب 250 کلومیٹر (160 میل) کے فاصلے پر واقع تین گومٹیشور مورتیوں میں سب سے چھوٹی ہے۔ یہ شرون بیلگول کی مورتی کے طرز پر پر کھڑی ہے۔ اجیلا خاندان کے راجاؤں نے 1154ء سے 1786ء تک وینور پر راج کیا۔[27]
گومٹا گری
ترمیمگومَٹا گِری ایک مشہور جین مرکز ہے۔ 12ویں صدی میں باہوبلی کی گرینائٹ کی مورتی، جس کو گومٹیشور بھی کہا جاتا ہے، جو 50 میٹر (160 فٹ) لمبی چھوٹی پہاڑی 'شرون گد' پر قائم ہے۔[20] جین مرکز ستمبر میں سالانہ "مہا مستکابھشیک" کے دوران میں بہت سارے تیرتھ یاتریوں کو متوجہ کرتا ہے۔[23][20] گومٹا گری کی مورتی شرون بیلگول کے 58 فٹ (18 میٹر) کی گومٹیشور مورتی کی طرح ہے، البتہ یہ چھوٹی ہے۔ مؤرخین اس مورتی کو وجیانگر دور کی بتاتے ہیں۔[20]
کمبھوج
ترمیمکمبھوج مہاراشٹر کے کولہاپور ضلع میں واقع ایک پرانے قصبے کا نام ہے۔ قصبہ کولہاپور کے قریب سات کلومیٹر دور ہتکنن گلے سے آٹھ کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ مشہور جین تیرتھ مرکز جہاں باہوبلی کی 28 فٹ (8.5 میٹر) اونچی مورتی ہے، یہ کمبھوج قصبے سے 2 کلومیٹر (1.2 میل) کی دوری پر واقع ہے۔[28]
اریتی پور
ترمیممدر تالک ضلع مانڈیا کے کوکری بیلر گاؤں کے نزدیک اریتی پور میں باہوبلی کی 10 فٹ (3.0 میٹر) اونچی مورتی ہے۔[29]
2016ء میں آرچیولوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) نے ایک اور 13 فٹ (4.0 میٹر) اونچی مورتی دریافت کی جو تیسری یا نویں صدی کی تھی۔[30] ASI اریتی پور، میڈور، مانڈیا، کرناٹک میں باہوبلی کی آٹھویں صدی عیسوی کی (0.91 میٹر) چوڑی اور 3.5 فٹ (1.1 میٹر) لمبی مورتی کی دریافت بھی کر چکا ہے۔[31]
ادب میں
ترمیمباہوبلی کی زندگی کی داستان کئی کتابوں میں ملتی ہے۔
سنسکرت
ترمیم- آدی پران آچاریہ جن سین نے تالیف کی۔ چامونڈ رائے نے اسی کتاب میں موجود وضاحت سے متاثر ہو کر گومٹیشور مورتی بنوائی۔[32][33]
- "باہوبلی چریتر" نویں صدی کی تصنیف ہے۔[34]
کنڑ
ترمیم- سنسکرت کتاب پر مبنی دسویں صدی کی کنڑ نظم آدی کوی پمپ نے تحریر کی۔[35][36]
- 1180ء کی نظم ایک جین شاعر بوپن نے باہوبلی کی تعریف میں لکھی۔[37]
راجستھانی
ترمیم- 1168ء میں 48 اشعار (جس میں بھارت اور باہوبلی کے بیچ جنگ کا ذکر ہے) پر مشتمل نظم "بھارٹیشور باہوبلی گھور" وجر سین نے تالیف کی۔[38]
نگار خانہ
ترمیممندرجہ ذیل تصاویر میں بھارت کے مختلف مقامات پر موجود باہوبلی کی مورتیاں ہیں۔
-
تلنگانہ اسٹیٹ آرچیولوجیکل میوزم، حیدرآباد میں موجود باہوبلی کی 12ویں صدی عیسوی کی مورتی
-
ہالی بیدو میں واقع باہوبلی کی مورتی
-
تین مورتی مندر، ممبئی میں موجود 28-فٹ (8.5 میٹر) اونچی باہوبلی کی مورتی
-
Kalugumalai Jain Beds میں واقع آٹھویں صدی کی گومٹیشور مورتی
-
اندی ملائی غاروں میں باہوبلی کی دسویں صدی عیسوی کی مورتی
-
اریتی پور میں باہوبلی مورتی
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیمحوالے
ترمیم- ↑ Sri Krishna Deva Rayala vamsa mulalu, 2018, by Muthevi Ravindranath, Savithri Publications, Guntur
- ↑ Karnataka State Gazetteer: Gulbarga District (Kalburgi District) - Google Books
- ↑ Granoff 1993, p. 208.
- ^ ا ب پ Sangave 1981, p. 66. sfn error: multiple _targets (2×): CITEREFSangave1981 (help)
- ^ ا ب Zimmer 1953, p. 212.
- ↑ Champat Rai Jain 1929, p. xv.
- ↑ Dundas 2002, p. 120.
- ↑ Champat Rai Jain 1929, p. 106.
- ^ ا ب پ Sangave 1981, p. 67. sfn error: multiple _targets (2×): CITEREFSangave1981 (help)
- ↑ Vijay K. Jain 2013, p. x.
- ↑ Vijay K. Jain 2013, p. xi.
- ↑ Champat Rai Jain 1929, p. 143.
- ↑ Champat Rai Jain 1929, p. 144.
- ↑ Champat Rai Jain 1929, p. 105.
- ↑ Champat Rai Jain 1929, p. 145.
- ^ ا ب Champat Rai Jain 1929, p. 145–146.
- ↑ Āchārya Jinasena۔ Ādipurāṇa۔ Bharatiya Jnanpith۔ صفحہ: 217۔ ISBN 978-81-263-1844-5
- ↑ Sangave 1981, p. 25. sfn error: multiple _targets (2×): CITEREFSangave1981 (help)
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ Stanley Pinto (21 جنوری 2015)، "12-year wait ends, all eyes on 42-ft-tall Karkala Bahubali"، دی ٹائمز آف انڈیا، منگلور، ٹائمز نیوز نیٹ ورک
- ^ ا ب پ ت "Gommatagiri statue crying for attention"، دی ہندو، 22 جنوری 2006
- ↑ Rice 1889, p. 53.
- ↑ مارچ of Mysore، 3، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، 1966، صفحہ: 56
- ^ ا ب پ Sangave 1981, p. 90. sfn error: multiple _targets (2×): CITEREFSangave1981 (help)
- ↑ "Bahubali abhisheka from today"، دی ہندو، 21 جنوری 2015ء
- ↑ herenow4u۔ "Karnataka ►Dharmasthala ►Shri Chandranatha Swamy Basadi and Bahubali Sculpture"۔ HereNow4u: Portal on Jainism and next level consciousness۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مارچ 2018
- ↑ Titze 1998, p. 48.
- ↑ Stanley Pinto (21 جنوری 2015)، "10-day Mahamastakabhisheka at Karkala from today"، دی ٹائمز آف انڈیا، منگلور، TNN
- ↑ Sangave 1981, p. 91. sfn error: multiple _targets (2×): CITEREFSangave1981 (help)
- ↑ "Bahubali of Aretipur"، Frontline، 29 اپریل 2016
- ↑ M. B. Girish (23 فروری 2016) [4 دسمبر 2015]، "Another Jain centre under excavation in Mandya district"، Deccan Chronicle
- ↑ "Eighth Century Jain Temple Discovered in Maddur"، The New Indian Express، Express News Service، 7 جنوری 2015، 10 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ 15 مارچ 2018
- ↑ Sangave 2001, p. 215.
- ↑ Sangave 1981, p. 72. sfn error: multiple _targets (2×): CITEREFSangave1981 (help)
- ↑ Sangave 1981, p. 51. sfn error: multiple _targets (2×): CITEREFSangave1981 (help)
- ↑ "History of Kannada literature"، kamat.com
- ↑ Students' Britannica India, Volumes 1–5، Popular Prakashan، صفحہ: 78، ISBN 0-85229-760-2
- ↑ Sangave 1981, p. 84. sfn error: multiple _targets (2×): CITEREFSangave1981 (help)
- ↑ Datta 1987, p. 454.
ماخذ
ترمیم- Paul Dundas (2002) [1992]، The Jains (Second ایڈیشن)، لندن and نیو یارک شہر: روٹلیج، ISBN 0-415-26605-X
- Phyllis Granoff (1993) [1990]، The Clever Adulteress and Other Stories: A Treasury of Jaina Literature، Motilal Banarsidass، ISBN 81-208-1150-X
- Champat Rai Jain (1929)، Risabha Deva – The Founder of Jainism، الٰہ آباد: The Indian Press Limited،
یہ متن ایسے ذریعے سے شامل ہے، جو دائرہ عام میں ہے۔
- Vijay K. Jain (2013)، Ācārya Nemichandra's Dravyasaṃgraha، Vikalp Printers، ISBN 978-81-903639-5-2،
یہ متن ایسے ذریعے سے شامل ہے، جو دائرہ عام میں ہے۔
- Benjamin Lewis Rice (1889)، Inscriptions at Sravana Belgola: a chief seat of the Jains, (Archaeological Survey of Mysore)، بنگلور: Mysore Govt. Central Press
- Vilas Adinath Sangave (1981)، The Sacred Shravanabelagola (A Socio-Religious Study) (1st ایڈیشن)، Bharatiya Jnanpith
- Kurt Titze (1998)، Jainism: A Pictorial Guide to the Religion of Non-Violence (2 ایڈیشن)، Motilal Banarsidass، ISBN 81-208-1534-3
- Heinrich Zimmer (1953) [اپریل 1952]، مدیر: Joseph Campbell، Philosophies Of India، لندن، E.C. 4: روٹلیج & Kegan Paul Ltd، ISBN 978-81-208-0739-6
- Vilas Adinath Sangave (2001)، Facets of Jainology: Selected Research Papers on Jain Society, Religion, and Culture، Popular Prakashan، ISBN 9788171548392
- Vilas Adinath Sangave (1981)، The Sacred ʹSravaṇa-Beḷagoḷa: A Socio-religious Study، Bhartiya Jnanpith
- Amaresh Datta (1987)، Encyclopaedia of Indian Literature: A-Devo، Sahitya Akademi، ISBN 9788126018031
بیرونی روابط
ترمیم- شری باہوبلیآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ shribahubali.org (Error: unknown archive URL)