در دانیال (ترکی: Çanakkale Boğazı، انگریزی: Dardanelles) آبنائے باسفورس کا جنوبی حصہ ہے جو بحیرہ ایجیئن کو بحیرہ مرمرہ سے ملاتا ہے۔ یہ آبنائے تقریباً 40 میل لمبی اور ایک میل سے چار میل تک چوڑی ہے اور یورپ کو ایشیا سے جدا کرتی ہے۔ تاریخ میں اس نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے متعلق سب سے پہلا تاریخی واقعہ وہ ہے جب اردشیر نے اس پر پل باندھا تھا۔ انگریز شاعربائرن نے اسے تیر کر پار کیا تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ لینڈر کا کارنامہ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ یہ آبنائے ترکی کے قبضے میں چودھویں صدی میں آئی جب سلطنت عثمانیہ نے اس پر قبضہ کیا۔ روس کو چونکہ بحیرہ روم میں داخل ہونے کے لیے اس سے گذرنا پڑتا ہے، لہذا روس کی ہر حکومت اس پر قبضے کی خواہش مند رہی۔ 1833ء میں جب زار روس نے مصر کے باغی محمد علی پاشا کے خلاف عثمانی سلطان کی مدد کی تو موخر الذکر نے روس کو در دانیال میں خاص مراعات دیں اور روسی جہازوں کو یہ حق دیا کہ وہ جب چاہیں آئیں مگر یورپی طاقتوں کو یہ ناگوار گزارا۔ بالخصوص اس لیے کہ بصورت جنگ انھیں اس آبنائے میں جہاز داخل کرنے کی اجازت نہ تھی۔ چنانچہ انھوں نے 1840ء میں لندن کنونشن کے ذریعے ترکی پر دباؤ ڈالا اور اس سے روس کے لیے مراعات منسوخ کرالیں۔ 1914ء تک یہ نظام رائج رہا۔

خلا سے در دانیال کا منظر
در دانیال - زرد رنگ میں
در دانیال کا پیری رئیس کا نقشہ

پہلی جنگ عظیم میں اتحادی طاقتوں نے در دانیال فتح کرنے کی کوشش کی مگر منہ کی کھائی۔ جنگ کے خاتمے پر اتحادیوں نے گیلی پولی کا ساحل یونان کو دے دیا اور اس آبنائے کو نہتا کر دیا۔ 1922ء میں مصطفے کمال اتاترک کی حکومت نے اسے یونانیوں سے واپس لے لیا۔ 4 اگست 1923ء کو اسے معاہدہ لوزان کی رو سے بین الاقوامی تحویل میں دے دیا گیا۔ 30 جولائی 1936ء کو مانٹرو کنونشن کی رو سے اس پر ترکی کا اختیار عملاً تسلیم کر لیا گیا۔

  NODES