سمیری
سمیری یا سومر عراق کی ایک قدیم تہذیب کا نام ہے جو چار ہزار سال قبل مسیح سے لے کر تین ہزار سال قبل مسیح تک دریائے دجلہ و فرات کے درمیان موجود تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ سامی النسل نہیں تھے اور اس علاقے کے باھر سے آئے تھے۔ ان کی زبان اعلیٰ ترقی یافتہ تھی اور وہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ ان کی زبان سومری تھی، ان کی لکھی ہوئی تختیاں قدیم مصر سے ملنے والی تحریر سے بھی پرانی ہیں۔ یہ تہذیب کانسی دور کی تہذیب تصور کی جاتی ہے، کچھ مورخین کا ماننا ہے کہ سومر 5500 اور 4000 ق م کے درمیان میں پہلی مرتبہ یہاں آ کر آباد ہوئے۔ سومیری تہذیب کا شمار دنیا کی اولین تہذیبوں میں ہوتا ہے، جیسا کہ قدیم مصر کی تہذیب قدیم عیلام کی تہذیب، کارل سوپے کی تہذیب, قدیم سندھی تہذیب، میونسٹر اور قدیم چینی تہذیب وغیرہ۔ وادی دجلہ و فرات کے درمیان میں رہنے والے یہ لوگ بہترین کاشتکار تھے اور کاشتکاری کے ایسے طریقے دریافت کر چکے تھے جنکو استعمال کر کے بہترین فصلیں اگاتے تھے, اسی بہترین کاشتکاری اور فصلوں کی پیداوار نے ان کو ایک پھلتی پھولتی شہری تہذیب میں تبدیل کر دیا تھا، اس کا اندازہ ہمیں اروک (جس کو شہر ورکا یا ورکاح بھی کہا جاتا ہے) اور جمدة نصر کے علاقوں سے ملنے والی تختیوں کی قدیم تحریر سے ہوتا ہے۔ یہ تاریخی تحریر 3000 سال قبل عیسوی دور کی تصور کی جارہی ہے۔
ویکی ذخائر پر سمیری سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
نام
ترمیمسومر یا سمیری نام(سمیری:𒅴𒄀 ، اکدی: 𒋗𒈨𒊒 ) اس تہذیب کو اس زبان کی نسبت سے دیا جاتا ہے جو اس تہذیب کے باشندے بولا کرتے تھے۔ یہ جنوبی میسوپوٹیمیا کے رہنے والے غیر سامی النسل کے قباہل یہ زبان اپنے اکدی اباواجداد جو سامی النسل تھے سے لے کر آءے تھے، ان سمیریوں کی نسبت ان کے علاقے کینجر (𒆠𒂗𒄀) سے کی جاتی ہے، جس کا مطلب اکدی زبان میں بزرگ لوگوں کی سرزمین ہے۔ یہ نام بھی ان کی دریافت کی گءی تحریروں میں ملتا ہے۔
ان کی سرزمین کا تعین وثوق سے کرنا مشکل ہے مگر یہ لوک اپنے آپ کو "کالے سر والے" (𒊕 𒈪) کہلواتے تھے، مثال کے طور پر سمیری بادشاہ شولگی یا شلکی اپنے آپ کو کالے سر والوں کا پادری کہلواتا تھا۔ اکدی قبائل بھی سمیریوں کو اپنے زبان میں سالامت کاکادی (کالے سر والے) کہہ کر پکارتے تھے۔
اکدی لفظ سومر شاید انہی کے بارے میں ہو لیکن تحریروں میں دریافت کردہ لفظ "سومیرو" لازماً اسی علاقے یا اس علاقے کے باشندوں کے بارے میں ہے۔ اسی طرح قدیم مصری زبان میں "سنگر" اور قدیم ہیتی زبان میں "سن ہارا" یا عبرانی لفظ "سنار" انہی لوگوں کے بارے میں ہے یا پھر انہی سمیری قبائل ان شاخوں کے بارے میں ہے جو جنوبی میسوپوٹیمیا میں آباد تھیں۔
مقام سکونت
ترمیمزیادہ تر مورخین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں سمیری مغربی ایشیا کی اولین باقاعدہ سکونت تھی جس کا زمانہ 5500 سے 4000 قبل مسیح کا ہے۔ یہاں کے لوگ سمیری زبان بولتے تھے جس کا اندازہ ہیں ان کی تحاریر، دریاوں کے نام شہروں کے نام اور ان کی باقیات سے لگایا جا سکتا ہے۔
کچھ مورخین کا ماننا ہے کہ سمیری شمالی افریقہ کے باشندے تھے جو سرسبز صحارا سے نقل مکانی کر کے یہاں وسطی ایشیا میں آ کر آباد ہوءے تھے اور یہاں انھوں نے کھیتی باڑی کے طور طریقوں کا راءیج کیا اور پھیلایا یہی لوگ تھے جنھوں نے اولین کاشتکاری کے طریقوں کی بنیاد رکھی اور اس کو میسوپوٹیمیا کے طول عرض تک پھیلایا۔ مورخ لازاریدیس لکھتا ہے کہ یہ اولین لوگ تھے جنھوں نے شمالی افریقہ میں غیر سامی النسل کی بنیاد رکھی اور اس کو بڑھاتے ہوءے وسط ایشیاء تک لے کر آئے انہی لوگوں نے فن ظروفی کا آغاز کیا اور مٹی سے برتن اور دیگر اشیاء ضروریہ بنانی شروع کیں۔ کھنڈرات سے ملنے والے 4 ڈھانچوں کے ڈی این اے کی تشیخص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ لوگ سندھ کی سر زمین تک پھیلے ہوءے تھے یا یوں کہنا جاءیز ہوگا کہ سندھ کے رہنے والے لوگ بھی سمیری قباءل ہی کی ایک شاخ تھے، مزید تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سمیری قباءل کا تعلق حوریہ قباہل اور یوریٹیائی قباہل سے بھی تھا جن کا مسکن قفقاز کے علاقے تھے۔
قبل تاريخ کے جو قباءل سمیری کے علاقہ جات میں سکونت رکھتے تھے جن کو فراتی یا عبیدی کہا جاتا ہے اسی شمالی میسوپوٹیمیا اور سمیری کلچر کی بنیاد بنے۔موجودہ مورخین کے مطابق یہی عبیدی قباہل سمیری تہذیب کی طاقت بنے جنھوں نے دلدلی علاقوں کو زرخیز زمین میں بدل دیا یہ لوگ بہترین کاشتکار تھے، اون اور کپڑا بننا جانتے تھے، چمڑے سے اشیاء بنانا انکا ہنر تھا، دھاتی اشیاء کی تیاری اور مٹی سے برتن وغیر ہ کی تیاری بھی ان کے فنون تھے۔
کچھ مورخین کے مطابق سمیری زبان فراتی (دریاے فرات کے آس پاس کا علاقہ) زبان کی ایک قسم ہے اور یہ لوگ یہیں آباد تھے اور باہر سے نہیں آءے اور ان کا گذر بسر صرف شکار پر تھا جو کبھی جنگل سے اور کبھی جنگل سے شکار کر کہ اپنا گذر بسر کرتے تھے اور ان کا مسکن عرب کی دلدلی علاقے تھے۔جورس زرین [1]کے مطابق سمیری قباہل سیلاب نوح سے پہلے مشرقی عرب کی ساحلی کیساتھ ساتھ آباد تھے یہ علاقہ آج کل ایران عرب کی ساحلی پٹی کیساتھ ملتا ہے۔سمیری تہذیب نے یروک دور (چار ہزار سال قبل مسیح) میں اپنی پہچان بنانی شروع کی جو جیمڈیٹ نصر اور ابتدائی خاندانی ادوار تک جاری رہی۔ سمیریوں نے شمال مغرب سے سامی ریاستوں پر بتدریج کنٹرول آہستہ آہستہ کھو دیا اور سومر کو بلاخر 2270 قبل مسیح (مختصر تاریخ) کے آس پاس اکادی سلطنت کے سامی بولنے والے بادشاہوں نے فتح کر لیا، لیکن سمیریاءی ایک مقدس زبان کے طور پر جاری بولی جاتی رہی۔ مقامی سمیری حکومت تقریبا 2100–2000 قبل مسیح میں اپنے تیسرے خاندان کیساتھ تقریبا ایک صدی تک دوبارہ ابھری اور سمیری زبان کیساتھ اکادی زبان بھی کچھ عرصے تک ان کے زیر استعمال رہی۔
میسوپوٹیمیا میں شہری ریاستیں
ترمیم4000 قبل مسیح کے اواخر میں سمیر کو کئی آزاد شہری ریاستوں میں تقسیم کیا گیا تھا جو نہروں اور سرحدی پتھروں سے تقسیم تھیں۔ ہر شہر کے وسط میں اس کے مخصوص سرپرست دیوتا یا دیوی کے لیے وقف ایک مندر ہوا کرتا تھا اور اس پر ایک پجاری گورنر (اینسی) یا کسی بادشاہ (لگال) کی حکومت تھی جو شہر کی مذہبی رسومات سے قریبی طور پر منسلک تھا۔
پانچ "پہلے" شہروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے "سیلاب نوح سے پہلے" خاندانی بادشاہت کا استعمال کیا تھا۔
1. اریدو (ابو شہررائن)
2. بادالطبریہ (غالبا المدائن)
3. لارک
4. سیپر (ابو حبعہ)
5. شوروپ پاک (فارا)
دیگر اہم شہر:
6. اروک (وارکا)
7. کیش (اہیمیر اور انگرا)
8. ار (المقیار)
9. نیپ پور (افک)
10. لغش
11. گرسو
12. اماں
13. ہمازی
14. ادب
15. ماری
16. اکشک
17. عکاد
18. لارسا
19. ایشان البحریات
چھوٹے شہر (جنوب سے شمال تک)
کوارا (الحم)
زبالا (ابزیخ )
کسورہ (ابو حاطب)
ماراڈ (صدوم)
دلبت
بورسیپا (برس نمرود)
کوٹھا (ابراہیم)
در (البدرہ)
شنونا (اسمر)
نگر (بریک)
ماری کے علاوہ جو شمال مغرب میں 330 کلومیٹر (205 میل) کے فاصلے پر واقع ہیں انھیں بادشاہت کا اولین پایہ تخت قرار دیا جاتا ہے کیونکہ ان علاقوں نے ابتدائی خاندانی دور میں "بادشاہوں نے ان کا استعمال" کیا ۔ اس کے علاوہ ور نگر اور شہر بغداد کے جنوب میں فرات اور بابل کے علاقے بھی قابل تذکرہ ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://en.wikipedia.org/wiki/Juris_Zarins مفقود أو فارغ
|title=
(معاونت)