رسالہ ٹائم (تقلیدی پہچان: TIME) ایک ہفتہ وار امریکی خبری رسالہ ہے، جو نیویارک شہر سے شایع کیا جاتا ہے۔ اِس کی 3 مارچ 1923ء کی پہلی اشاعت کے بعد بریٹن ہیڈن اور ہینری لوس اِس رسالے کے پہلے مدیر ہوئے۔ بریٹن ہیڈن کے انتقال کے بعد، عرصہ دراز تک، ہینری لوس اِس رسالے کے اکلوتے مدیر رہے۔ چنانچہ، ہینری لوس کی شخصی سیاسی سوچ اِس رسالے پر غالب رہی۔

'
فائل:Time-Covers.jpg
انتظامی مدیرنینسی گبس
زمرہخبری رسالہ
دورانیہہفتہ وار
تعداد اشاعت3,286,467[1]
پہلا شمارہمارچ 3، 1923؛ 101 سال قبل (1923-03-03)
ادارہ
ملکریاسَتہاۓ مُتحِدہ امریکہ
مقام اشاعتنیویارک شہر، نیویارک
زبانانگریزی
ویب سائٹtime.com
آئی ایس ایس این0040-781X
او سی ایل سی1311479

اِس رسالے کے دیگر بینالاقوامی سلسلے ہیں جیسے کہ یورپ کے لیے لندن سے شایع ہونے والا ٹائم یورپ (ماضی میں اِسے ٹائم ایٹلانٹک کے نام سے جانا جاتا تھا) اور ہانگ کانگ سے شایع ہونے والا ٹائم ایشیا جو پاکستان میں بھی فروخت ہوتا ہے، وغیرہ۔

ٹائم، انگریزی زبان میں چھپتا ہے اور ساری دُنیا میں پڑھا جاتا ہے۔ اِس میں سیاسی خبروں کے علاوہ سائنسی، ثقافتی اور اہم موضوعات بھی شامل ہوتے ہیں۔ اِس کے کارٹون اور تصویر بھی دلچسپ ہوتے ہیں۔ یہ رسالہ صرف امریکا میں ہی ایک ہفتہ میں تقریباً 4,038,508 صارفین میں فروخت ہوتا ہے۔

تاریخ

ترمیم
 
رسالہ ٹائم کے پہلے شمارے، بتاریخ 3 مارچ 1923ء، کے صفحۂ اول پر سپیکر جوسف جی کینن کی تصویر شایع کی گئی۔

رسالہ ٹائم کو بریٹن ہیڈن اور ہینری لوس نے 1923ء میں تخلیق کیا۔[2] ہیڈن اور لوس کا بنیادی مقصد ایک ایسے جریدے کی اشاعت تھا جس میں خبروں کی تفصیل مختصر انداز سے پیش کی جائے تاکہ لوگ اِسے اپنی مصروفیت میں لُطف سے پڑھ سکیں۔[2] یہ دونوں اِس مقصد میں اتنے کامیاب ہوئے کہ دیکھا دیکھی باقی ناشرین نے بھی انھی کی طرح اپنے رسالوں اور جریدوں کی ترتیب بدل ڈالی۔ چنانچہ، رسالہ ٹائم، ریاستہائے متحدہ امریکا میں، اپنی طرز کا پہلا ہفتہ وار خبری رسالہ بن کر اُبھرا۔

ٹائم کی اشاعت سے قبل، اکثر رسالوں کا دہان کسی نہ کسی کہانی یا خبر پر مرکوز ہوتا ہے۔ ٹائم وہ پہلا رسالہ یا جریدہ تھا جس میں کہانیوں اور خبروں کا مَرکُوزی مَقام کوئی نہ کوئی شخصیت ہوتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ ٹائم کے اکثر ابتدائی شماروں کے اولین صفحے پر اشخاص کی ہی تصویر واضح ملتی ہے۔ چنانچہ رسالہ ٹائم نے یہ نئی طرز اپنا لی کہ اِس میں خبر کا جائزہ خبر کی مرکزی شخصیات کے ذریعہ لیا جانے لگا۔ اگلی چند دہایوں تک ٹائم کے ہر شمارے کے اولین صفحے پر ایک واحد شخصیت کی تصویر نمایاں ملتی ہے۔

طرز اشاعت

ترمیم

رسالہ ٹائم کے اولین صفحے پر عموماً لال رنگ کا حاشیہ پایا جاتا ہے جو اب اِس کی پہچان بن چُکا ہے۔ اِس کے اشاعتی تاریخ میں اِس حاشیے کا رنگ محظ چار بار ہی تبدیل کیا گیا ہے۔ اِس کا رنگ پہلی مرتبہ لال سے سیاہ تب کیا گیا جب سانحہ گیارہ ستمبر کا واقعہ ہوا۔ دوسری مرتبہ 28 اپریل 2008ء یوم ارض کے موقع پر حاشیے کو سبز کر دیا گیا۔ تیسری مرتبہ سانحہ گیارہ ستمبر کی دسویں برسی پر اِسے سرمئی رنگ دے دیا گیا۔ اخیر میں اِس کو پھر دوبارہ سرمئی تب کیا گیا جب بارک اوباما کو 31 دسمبر 2012ء کے شمارے میں ٹائم نے دوسری مرتبہ سالانہ شخصیتِ خاص نامزد کیا۔

خصوصی اشاعیے

ترمیم

ٹائم 100

ترمیم

حالیہ برسوں میں ٹائم ہر سال 100 بااثر شخصیات کی ایک سالانہ فہرست بناتا ہے۔ شروع میں یہ فہرست 20ویں صدی کے سب سے بااثر شخصیات کی فہرست ہونی تھی، لیکن اِس کی مقبولیت کے بعد اِسے سالانہ اشاعیہ بنا دیا گیا۔ اِس خصوصی اشاعیے کے صفحۂ اول پر نامزد 100 شخصیات کی تصاویر ہوتی ہیں اور رسالے میں اِن 100 اشخاص پر 100 مضامین بھی درج ہوتے ہیں۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو یا دو سے زائد اشخاص فہرست میں ایک ہی مقام کے مُشتَرکہ حامل ہوتے ہیں۔ 19 اپریل 2013ء میں پاکستان کی ملالہ یوسفزئی کو ٹائم کے اولین صفحے پر جگہ ملی اور اِس کو ٹائم 100 فہرست میں بھی شامل کیا گیا۔[3]

صفحۂ اول پر سرخ نشانِ مرگ

ترمیم

اپنی تاریخ میں صرف چار بار، ٹائم نے غیر مسلسل ایسے شمارے شایع کیے جن کے اولین صفحے پر دکھائے گئے اشخاص کے چہروں پر ایک سرخ ایکس (x) کا نشان دکھایا گیا۔ اِس نشان کو ٹائم کا نشانِ مرگ بھی کہا جاتا ہے۔ پہلی مرتبہ یہ نشان 7 مئی 1945ء کو ایڈولف ہٹلر کے چہرے پر دکھایا گیا۔ 58 سال بعد، 21 اپریل 2003ء کو عراقی آمر کا تختہ الٹنے کے دو ہفتے بعد، صدام حسین کے چہرے پر دکھایا گیا۔ تیسرا، عراق میں ایک امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے ابو مصعب الزرقاوی کے چہرے پر دکھایا گیا۔ آخری اسامہ بن لادن کے چہرے پر دکھایا گیا جب اُسے مئی 2011ء میں ایبٹ آباد میں امریکی خفیہ کارروائی میں ہلاک کر دیا گیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "صارفین رسالہ جات"۔ اتحاد برائے میڈیا محاسبہ۔ اخذ کردہ بتاریخ 10 فروری 2014ء۔
  2. ^ ا ب "امریکی جریدہ ٹائم"۔ دائرۃ المعارف بریطانیکا۔ اخذ کردہ بتاریخ 20 اکتوبر 2015ء۔
  3. نصرت شبنم (19 اپریل 2013ء)، "ملالہ یوسفزئی دنیا کی سو با اثر شخصیات میں شامل"۔ وائس آف امریکہ۔ اخذ کردہ بتاریخ 21 اکتوبر 2015ء۔
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔
  NODES
os 1